عشق کا خمار مجھ پر بڑھنے لگا ہے
دل میں ایک خواب سا پھر بڑھنے لگا ہے
اس کی یاد ہر گھڑی میں چھا گئی ہے
صبر کا دیا بھی کم تر بڑھنے لگا ہے
دیکھ کر نگاہِ نازک کی حرارت
درد دل کے اندر اندر بڑھنے لگا ہے
وہ جو چھین لے گیا تھا چین میرا
پھر سے دل میں وہ اثر بڑھنے لگا ہے
چپ تھی ہر صدا، سکوت میں بھی خوشبو
اب تو ذکر اُس کا اکثر بڑھنے لگا ہے
خود کو "زیدی" عشق میں پایا گم سم
خامشی کا بھی ہنر بڑھنے لگا ہے

0
3