یہ شام، چاند، یہ کہکشاں ملیں گے تمہیں |
مگر ہمارے سے کچھ رازداں ملیں گے تمہیں |
ہے دل کی بات ابھی لب پہ آ نہیں پائی |
سو چند لفظ ہی نیم زباں ملیں گے تمہیں |
نہ ہم سے بات کرو چاندنی کی اب اتنی |
کہ دُھوپ، سایہ، کئی امتحاں ملیں گے تمہیں |
جو وقت گزر چکا ہے کبھی پلٹتا نہیں |
کبھی جو لوٹ کے آئے، کہاں ملیں گے تمہیں |
یہی غبار، یہی بے بسی، یہی ہجرت |
کبھی خیال میں بھی رائگاں ملیں گے تمہیں |
نہ ہم نے توڑا کبھی سلسلہ وفاؤں کا |
اگر خفا بھی ہوئے تو جواں ملیں گے تمہیں |
بس ایک درد کی صورت لکھے ہیں زیدیؔ نے |
سو ہم ہر ایک نئی داستاں ملیں گے تمہیں |
معلومات