تحریر ندیم احمد زیدی
زندگی دراصل ایک رواں دواں جُوئے خرام ہے، جس کی موجیں انسان کو وقتاً فوقتاً مختلف نوع کے رشتوں، تعلقات، اور جذبات سے ہمکنار کرتی رہتی ہیں۔ ہر رشتہ اپنی ماہیت میں محبت، خلوص، اور ایثار کا متقاضی ہوا کرتا ہے۔ مگر صد افسوس کہ انسان اکثر اپنی تنگ نظری، خود پسندی، اور بے جا ضد کی بھینٹ ان لطیف بندھنوں کو چڑھا دیتا ہے۔
رشتوں کی نزاکت کو ملحوظ رکھنا ایک سلیقہ ہے جو ہر شخص کے حصے میں نہیں آتا۔ وہ اس نکتے کو فراموش کر بیٹھتا ہے کہ رشتے دلوں کی قربت سے استوار ہوتے ہیں، نہ کہ انا کی تنگ گلیوں سے۔ یہی سبب ہے کہ عصرِ حاضر میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ ذرا سی کدورت، ایک ناتمام گفتگو، یا معمولی اختلاف کی بنا پر عشروں پرانے تعلقات کو یکایک خیر باد کہہ دیتے ہیں، مگر اپنی ضد اور انانیت کا دامن نہیں چھوڑتے۔
"لوگ رشتے چھوڑ دیتے ہیں، مگر اپنی ضد نہیں" — یہ فقط ایک جملہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک نہایت تلخ مگر سچائی پر مبنی تصویر ہے۔ ضد، درحقیقت، انا کا وہ جامد اور سرد پہلو ہے جو انسان کے دل کو مروّت، نرمی، اور وسعتِ ظرف سے خالی کر دیتا ہے۔ ایسا شخص معذرت کو توہین، صلح کو کمزوری، اور جھکنے کو شکست تصور کرتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
وہ یہ نہ جانتا ہے کہ رشتے ایک بار چھوٹ جائیں تو وہ اپنی اصل شکل میں کبھی بحال نہیں ہو سکتے۔ وقت کا گزر جانا، الفاظ کا زخم بن جانا، اور رویوں کا کھردرا پن—یہ سب وہ اسباب ہیں جو کسی بھی پائیدار تعلق کو نیست و نابود کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ انسان کا اصل حسن و جمال اسی میں پنہاں ہے کہ وہ وقتِ نزاع اپنی انا کو ترک کر کے محبت کا دامن تھام لے، اور جھکنے کو ہنر جانے۔
آخرِ کار یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص ضد کو خیر باد کہہ دے، وہی حقیقی معنوں میں رشتوں کی بازی جیتتا ہے۔ کیونکہ رشتے قوتِ بازو سے نہیں، بلکہ وسعتِ دل سے سنوارے جاتے ہیں۔ ضد تو فقط تنگ ظرف لوگوں کا ہتھیار ہے، جبکہ بڑے دل والے ہمیشہ صلح و درگزر کو شعار بناتے ہیں۔ پس، اگر زندگی کی ناؤ کو رشتوں کے ساحل تک بحفاظت پہنچانا ہے تو ضد کے پتھر دل سے اترنا سیکھنا ہو گا۔

0
6