Circle Image

سعیدسعدی

@saeedsaadi

#Saeed_Saadi

صبح کا نام لیا، رات تو ڈر جائے گی
پھر یہ امکاں ہے کہ ڈھلنے سے مکر جائے گی
جتنا چھیڑو گے اِسے اُتنا بکھر جائے گی
زندگی ورنہ سہولت سے گزر جائے گی
بے ضرر جس نے یہاں زیست گزاری ہوگی
آخرت اس کی ہے امید سنور جائے گی

0
1
وہ محبت عام کرتا مسکراتا آدمی
مخلصی کے ہر طرف دریا بہاتا آدمی
خندہ پیشانی سے جھیلیں زندگی کی مشکلیں
موت کی آغوش میں وہ گنگناتا آدمی
وہ سمجھتا تھا کہ یہ دنیا ہے بس قیدِ قفس
ہو گیا آزاد اب وہ پھڑپھڑاتا آدمی

0
4
مری عادت ہے خودتحقیق کرنا
پھر اس کے بعد ہی توثیق کرنا
ازل سے قبل ہی سب طے شدہ تھا
ہے کس کو کس طرح تخلیق کرنا
صداقت ہے اگر باتوں میں میری
تو میرے یار پھر تصدیق کر، نا

0
8
لب پہ آہ و بکا نہیں باقی
"ضبط کا حوصلہ نہیں باقی "
کیسے وعدوں پہ اعتبار کروں
پاسِ عہدِ وفا نہیں باقی
سامنے دو قدم پہ منزل ہے
اور کوئی راستہ نہیں باقی

0
26
وفائیں، پیار، محبت، سنبھال رکھتا تھا
وہ ایک شخص جو میرا خیال رکھتا تھا
نگاہیں اس کی مرے اردگرد رہتی تھیں
ہمیشہ مجھ پہ نگاہوں کے جال رکھتا تھا
جدائی کا کوئی لمحہ گوارا کب تھا اُسے
شمارِ ساعتِ ہر ماہ و سال رکھتا تھا

2
65
تمھارے ساتھ کا گزرا ہوا ہر ایک پل جب بھی کبھی مجھ کو ستائے گا، مجھے تم یاد آؤ گے
کسی بھی شام کی تنہائیوں میں پرسکوں لمحہ اگر آیا، رلائے گا ،مجھے تم یاد آؤ گے
کبھی ہنسنا کبھی رونا کبھی غصے بھری باتیں کبھی یوں ہی بہت گم صم بہت چپ چپ ملاقاتیں
مگر آئندہ سالوں میں کوئی موسم مرے دل میں اگر ہلچل مچائے گا مجھے تم یاد آؤ گے
میں اپنی ذات میں گم خوش بھی رہ سکتا ہوں لیکن کیا کروں اک بات کا دھڑکا سا رہتا ہے مجھے پھر بھی
اگر آگے بہت آگے کوئی نزدیک آئے گا تری یادیں بھلائے گا مجھے تم یاد آؤ گے

0
47
گر تری ذات معتبر ہوگی
تب تری بات پُر اثر ہوگی
اس کی تصویر آنکھ میں رکھنا
ہجر کی رات مختصر ہو گی
دن تو آوارگی میں گزرا ہے
شام جانے کہاں کدھر ہوگی

0
28
سینے کے کیا داغ دکھائیں، جانے دو
اب ہم تم کو کیا سمجھائیں، جانے دو
ہجر میں ہم نے یارو کیا کچھ جھیلا ہے
چھوڑو کیا تفصیل سنائیں، جانے دو
اب تو اندر باہر ایک ہی موسم ہے
دل اور شہر میں سائیں سائیں، جانے دو

0
72
تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی
انہی سے زندگی کا کچھ ہمیں احساس ہے باقی
دلوں کے ٹوٹنے کی گر کوئی آواز ہوتی تو
عجب ہوتا اگر کوئی سماعت تاب لے آتی
بنا ہے خاک سے لیکن نہ ہو گر خاکساری تو
برابر ہے تو پھر ہونا نہ ہونا پیکرِ خاکی

0
107
ساغر و پیمانہ خالی میکدہ ویران ہے
شہر کے رستے ہیں خالی ، ہر گلی سنسان ہے
کوچ کرکے جا چکے ہیں بلبلوں کے قافلے
ہو ُ کا عالم ہے وہ چاہے کھیت یا کھلیان ہے
ڈر رہے ہیں یار یاروں سے جدا محبوب ہیں
یہ ہوا کیسی چلی ہے ہر کوئی حیران ہے

121
وفائیں، پیار، محبت، سنبھال رکھتا تھا
وہ ایک شخص جو میرا خیال رکھتا تھا
نگاہیں اس کی مرے اردگرد رہتی تھیں
ہمیشہ مجھ پہ نگاہوں کے جال رکھتا تھا
جدائی کا کوئی لمحہ گوارا کب تھا اُسے
شمارِ ساعتِ ہر ماہ و سال رکھتا تھا

0
61