وہ محبت عام کرتا مسکراتا آدمی
مخلصی کے ہر طرف دریا بہاتا آدمی
خندہ پیشانی سے جھیلیں زندگی کی مشکلیں
موت کی آغوش میں وہ گنگناتا آدمی
وہ سمجھتا تھا کہ یہ دنیا ہے بس قیدِ قفس
ہو گیا آزاد اب وہ پھڑپھڑاتا آدمی
آخری دم تک زمانے سے وہ شاکی ہی رہا
مشکلوں کی دھوپ میں وہ تلملاتا آدمی
تھک کے آخر کار جا سویا وہ مٹی کے تلے
جو کہ مٹی سے بنا تھا، چرمراتا آدمی
کیا خبر سعدی خدا سے کیا گلے شکوے کرے
صابر و شاکر بہت تھا بڑبڑاتا آدمی

0
4