ساغر و پیمانہ خالی میکدہ ویران ہے |
شہر کے رستے ہیں خالی ، ہر گلی سنسان ہے |
کوچ کرکے جا چکے ہیں بلبلوں کے قافلے |
ہو ُ کا عالم ہے وہ چاہے کھیت یا کھلیان ہے |
ڈر رہے ہیں یار یاروں سے جدا محبوب ہیں |
یہ ہوا کیسی چلی ہے ہر کوئی حیران ہے |
ساز، سازندے ہوں چارہ گر ہوں یا بیمار ہوں |
خوف طاری ہےنہ کوئی حال کا پرسان ہے |
شاعروں کا درد بھی حد سے سوا ہونے لگا |
سالِ نو کی ابتدا سے ہر کوئی ہلکان ہے |
نالہ و فریاد سے آباد ویرانے کروں |
خاک ڈالوں سر پہ اپنے اس قدر ہیجان ہے |
گردشِ دوراں کے تھمنے پر بھی آنکھیں بند ہیں |
خوابِ غفلت میں ہے انساں اس قدر نادان ہے |
خشک چشمے ہوگئے، آبِ رواں سکتے میں ہے |
لگ رہا ہے آسماں دشمن یہ کیا بحران ہے |
پھول برسیں ، جام چھلکیں ، وقتِ رفتہ لوٹ آ |
ہر گرفتہ دل کا سعدی بس یہی ارمان ہے |
معلومات