ساغر و پیمانہ خالی میکدہ ویران ہے
شہر کے رستے ہیں خالی ، ہر گلی سنسان ہے
کوچ کرکے جا چکے ہیں بلبلوں کے قافلے
ہو ُ کا عالم ہے وہ چاہے کھیت یا کھلیان ہے
ڈر رہے ہیں یار یاروں سے جدا محبوب ہیں
یہ ہوا کیسی چلی ہے ہر کوئی حیران ہے
ساز، سازندے ہوں چارہ گر ہوں یا بیمار ہوں
خوف طاری ہےنہ کوئی حال کا پرسان ہے
شاعروں کا درد بھی حد سے سوا ہونے لگا
سالِ نو کی ابتدا سے ہر کوئی ہلکان ہے
نالہ و فریاد سے آباد ویرانے کروں
خاک ڈالوں سر پہ اپنے اس قدر ہیجان ہے
گردشِ دوراں کے تھمنے پر بھی آنکھیں بند ہیں
خوابِ غفلت میں ہے انساں اس قدر نادان ہے
خشک چشمے ہوگئے، آبِ رواں سکتے میں ہے
لگ رہا ہے آسماں دشمن یہ کیا بحران ہے
پھول برسیں ، جام چھلکیں ، وقتِ رفتہ لوٹ آ
ہر گرفتہ دل کا سعدی بس یہی ارمان ہے

121