چارہ گر ہے نہ کوئی چارہ بھی
پھیکا پھیکا سا ہر نظارہ بھی
روشنی کا وہ استعارہ تھا
"بجھ گیا رات وہ ستارا بھی"
جو ہمیں راستہ دکھاتا ہے
ہاں وہ جینے کا ہے سہارا بھی
وہ جو ہم سے خفا سا رہتا ہے
اس میں کچھ ہاتھ ہے ہمارا بھی
وہ سنی ان سنی ہی کر دے گا
ہم نے اس کو اگر پکارا بھی
ہم تری پہروں راہ تکتے ہیں
چاند، میں، نہر کا کنارا بھی
اس جہانِ خراب میں سعدی
اپنا ممکن نہیں گزارا بھی

0
21