لب پہ آہ و بکا نہیں باقی |
"ضبط کا حوصلہ نہیں باقی " |
کیسے وعدوں پہ اعتبار کروں |
پاسِ عہدِ وفا نہیں باقی |
سامنے دو قدم پہ منزل ہے |
اور کوئی راستہ نہیں باقی |
حیف صد حیف میری بستی میں |
اب کوئی ضابطہ نہیں باقی |
زندگی ایک آزمائش ہے |
یاں کوئی بھی سدا نہیں باقی |
تیر سینوں پہ روک لیتے تھے |
اب وہی ولولہ، نہیں باقی |
ہم اسے دیکھ کر ہی جی لیتے |
کیا کریں، رابطہ نہیں باقی |
اب تو لکھتے ہیں لوگ تقدیریں |
سوچتے ہیں خدا نہیں باقی |
دل میں اک ٹیس اب بھی اٹھتی ہے |
دردِ دل کی دوا نہیں باقی |
چار چھ شعر اور کہہ لیتے |
پر کوئی قافیہ نہیں باقی |
ہم قناعت پسند ہیں سعدی |
دل میں کوئی خلا نہیں باقی |
معلومات