Circle Image

جاوید ڈینی ایل Javaid Daniel

@Tadeeb

مُجھے تُم سے گَر عِشق کافر نہ ہوتا :: غزل تُم نہ ہوتی مَیں شاعر نہ ہوتا

سامنے جب صلیب ہوتی ہے
دِل کو راحت نصیب ہوتی ہے
وہ ہی مجھ کو سنبھال لیتا ہے
موت جب بھی قریب ہوتی ہے
جس کو اُلفت کسی سے ہو جائے
اُس کی دنیا رقیب ہوتی ہے

0
13
مَیں نے دیپ جلائے ہیں
کتنے بادل چھائے ہیں
اُس نے لوٹ کے آنا تھا
ڈھل گئے شام کے سائے ہیں
میرے کمرے میں اُس نے
آ کر پھول لگائے ہیں

0
8
سورج ، چاند ، ستاروں میں
تیرا روپ نظاروں میں
ہر سُو تیری خوش بُو ہے
صحرا میں ، گلزاروں میں
تجھ سا کوئی مل نہ پائے
لاکھوں اور ہزاروں میں

0
11
چاند سا چہرہ آنکھوں میں
پھول ہو جیسے شاخوں میں
رُوٹھ نہ جائے یار کہیں
مجھ سے باتوں باتوں میں
خوش بُو اُس کے ہونٹوں کی
مہکی میری سانسوں میں

0
5
نفرت کی آگ بجھائیں گے
چاہت کا شہر بسائیں گے
اِس جنگ و جدل کی دُنیا میں
ہم اَمن کے گیت ہی گائیں گے
جیون کی اندھیری راہوں میں
ہم خون کے دیپ جلائیں گے

0
3
خوابوں میں جب آئے وہ
غزلیں میری گائے وہ
دیکھ کے مجھ کو کھڑکی سے
اپنا ہاتھ ہلائے وہ
کاش کہ بھیگے موسم میں
نغمہ کوئی سنائے وہ

18
محبت جب ہو جاتی ہے
بہت روتی رُلاتی ہے
یہ ماضی کے جھروکوں سے
کئی چہرے دِکھاتی ہے
کہیں بُنتی ہے یہ سپنے
کہیں غنچے سجاتی ہے

0
16
مجھ سے اب وہ خفا نہیں ہوتا
کیوں کہ اب رابطہ نہیں ہوتا
دِل مچلتا ہے بات کرنے کو
جانے کیوں حوصلہ نہیں ہوتا
آج بھی اعتبار ہے اُس پر
وہ کبھی بے وفا نہیں ہوتا

4
197
کِس نے خیال و خواب کو پہنا دیا کفن
زخموں سے چور چور ہے لفظوں کا پیرہن
اشکوں سے تر ہے صفحہِ قرطاس اِس طرح
جیسے صلیب و دار پہ لٹکا ہوا بدن
پل میں چراغ دیکھئے کتنے ہی گُل ہوئے
نفرت کی تیز آگ نے جھُلسا دیا چمن

17
ہے جاگی مِرے دِل میں یہ آرزو
کہ دیکھوں اُسے آج مَیں رُوبرو
(۱)
تجلی ہے موسیٰ کو جس کی عطا
وہ ابنِ خدا پھر دکھائی دیا
اُسی سے کروں آج مَیں گفتگو

0
14
قلم لکھ کے حمد و ثنا جھُومتا ہے
نگاہوں میں منظر نیا جھُومتا ہے
مَیں نغمات جاویدؔ جب اُس کے گاؤں
مِرے ساتھ میرا خُدا جھُومتا ہے

21
مِری پانیوں پر جو پرواز ہے
یہ میرے مسیحا کا اعجاز ہے
وہ قرباں ہوا ہر بشر کے لیے
یہی اُس کی اُلفت کا انداز ہے
مَیں لفظوں میں تعریف کیسے کروں؟
وہ بے مثل ہے، اور ممتاز ہے

0
16
یہ دِل جو میرا مچل رہا ہے
سِحر اُسی کا ہی چل رہا ہے
یہ مثلِ آتش جو جل رہا ہے
یہ عشق مجھ میں ہی پل رہا ہے
غزال آنکھیں گلاب چہرہ
ہمارے شعروں میں ڈھل رہا ہے

48
عجب تماشا سا چل رہا ہے
غریب ہاتھوں کو مل رہا ہے
پنپ رہی ہے منافقت بھی
عروج پستی میں ڈھل رہا ہے
اِسی لیے تو وہ مر رہا ہے!
حسد کی بھٹی میں جل رہا ہے

58
ہر اک خیال کی تجوید کر کے دیکھیں گے
وصالِ یار کی اُمید کر کے دیکھیں گے
چراغ ہم نے جلایا جو اُس کی یادوں کا
اُسی چراغ کو خورشید کر کے دیکھیں گے
رموزِ عاشقی سے گرچہ وہ نہیں واقف
چلو اُسے بھی یہ تاکید کر کے دیکھیں گے

0
64
آنکھوں کے خواب قلب کے ارمان جل گئے
نفرت کی تیز آگ میں انسان جل گئے
گرجاؤں میں پڑی ہوئی اِنجیل جل گئی
الطار ، شیرہ ، روٹیاں ، لوبان جل گئے
قائد نے جو کیے تھے وہ اعلان جل گئے
اوراق پاک کیا جلے ، درمان جل گئے

71
خشک پتوں کے جیسے بکھر جائیں گے
تم نہ ہم کو ملے تو کدھر جائیں گے
ساتھ تیرا اگر مل نہ پایا ہمیں
ہم تو جاویدؔ ! جیتے ہی مر جائیں گے

0
54
عشق کی تم سزا نہ دے جانا
زخم کوئی نیا نہ دے جانا

0
57
مِثلِ گل بِکھرنے والا ہوں
مَیں تہِ خاک اُترنے والا ہوں
وہ بھی جاویدؔ ! منتظر ہو گا
جس کو چھُو کے نِکھرنے والا ہوں

0
49
دردِ ایسے چھپائے بیٹھا ہوں
جیسے سب کچھ کمائے بیٹھا ہوں
مَیں رقیبوں کے درمیاں رہ کر
شمع اُس کو بنائے بیٹھا ہوں
سر جھکایا نہیں ہے چوکھٹ پر
آس مَیں بھی لگائے بیٹھا ہوں

57
بے بسی ختم ہو نہیں سکتی
زندگی ختم ہو نہیں سکتی
یاد ایسا چراغ ہے جس کی
روشنی ختم ہو نہیں سکتی
رات دن ساتھ رہتے ہیں پھر بھی
تشنگی ختم ہو نہیں سکتی

86
مرے شعر میں جو خیال ہے
یہ اُسی کا عکسِ جمال ہے
وہ حَسِین ہے یہ بجا مگر
مرا عشق بھی تو کمال ہے
وہ عجیب ہے وہ مشیر ہے
یہ اُسی کا جاہ و جلال ہے

0
136
کسی کو گفتگو کرنے سے پہلے رام کر لینا
ہنر اس کو ہی آتا ہے یہ مشکل کام کر لینا
کسی بے کیف لمحے میں تھکا ہارا بدن تھامے
کبھی جاویدؔ مل جائے تو لطفِ جام کر لینا

90
کوئی قوت طلسماتی کمر جھکنے نہیں دیتی
شگفتہ گفتگو تیری مجھے اُٹھنے نہیں دیتی
سفر جاری ہے جیون کا رہے گا تا ابد جاری
تمہارے وصل کی خواہش مجھے رُکنے نہیں دیتی
بہت سے کام کرنے کے ابھی باقی ہیں دُنیا میں
مگر یہ ہجر کی ساعت مجھے کرنے نہیں دیتی

2
118
ایسے دِل توڑ کر تو نہ جاتے
اور مُنہ موڑ کر تو نہ جاتے
کاش ہمراہ یادیں لے جاتے!
یوں مجھے چھوڑ کر تو نہ جاتے

57
خون دے کر نکھاریں گے ارضِ وطن
یوں نبھاتے رہیں گے یہ فرضِ وطن
ہم پہ جاویدؔ واجب ہوا یا نہیں !!
مر کے بھی ہم اُتاریں گے قرضِ وطن

112
ہواؤں کو پل میں تھما دینے والا
وہ اپنی کرن سے شفا دینے والا
اگر ڈگمگائیں قدم مومنوں کے
وہی نام ہے حوصلہ دینے والا
بڑھے ہاتھ اُس کا جو پطرس کی جانب
اُسے پانیوں پر ٹِکا دینے والا

131
نیند میں اِک خواب دیکھا گزری شب
خواب میں مہتاب دیکھا گزری شب
ہونٹ رکھے اُس نے پیشانی پہ جب
خود کو آب و تاب دیکھا گزری شب
کھُل گئے مجھ پر رموزِ عاشقی
ایک ایسا باب دیکھا گزری شب

81
اب کے گزری گراں ہے مری گفتگو
جس کو رہتی تھی پل پل مری جستجو
جس کی خاطر بھٹکتا رہا کُو بہ کُو
آج کرتا نہیں مجھ سے وہ گفتگو
اُس کی یادوں میں حالت عجب ہو گئی
جس نے لُوٹا مجھے تھا بہت خُوب رُو

99
ٹمٹماتی رہی چاندنی رات بھر
جگمگاتی رہی چاندنی رات بھر
چاند چلتا بنا جب اُسے چھوڑ کر
پھڑپھڑاتی رہی چاندنی رات بھر
سرد راتوں میں تنہا کسی کے لئے
کپکپاتی رہی چاندنی رات بھر

192
مُجھ سے جو تقصیر ہوئی تھی
وہ میری زنجیر ہوئی تھی
کچھ یادیں اور کچھ کاغذ تھے
جو اپنی جاگیر ہوئی تھی
راکھ ہوئی وہ بستی جس دن
رُوح مری دِل گیر ہوئی تھی

96
رات بھر چاندنی کیوں بھٹکتی رہی
نیند آنکھوں میں آ کر سِسکتی رہی
دے رہا ہے مجھے کون تحفے سدا
سوچ، سوچوں میں میری کھٹکتی رہی
آندھیوں میں مرا گھر نشانہ بنا
میرے گھر پر ہی بجلی کڑکتی رہی

177
کرم اُس کا جو ہر گھڑی چاہیے
رِدائے دُعا بھی بری چاہیے
جو سوچوں کو جیون نیا بخش دے
خیالوں کی اِک پھُل جھڑی چاہیے
بگڑتی ہوئی نسلِ نو کے لیے
حلیمی میں لِپٹی چھڑی چاہیے

126
تُجھ سے ملنے کی ٹھان رکھی ہے
یوں ہتھیلی پہ جان رکھی ہے
خوف کھاتی ہوئی ہوائیں ہیں
اور مَیں نے اُڑان رکھی ہے
ہم ترے ہجر کے ستائے ہیں
تُونے رَہ میں چٹان رکھی ہے

173
یہ مجھ پہ کیسا عذاب ٹوٹا
کہ تجھ سے ملنے کا خواب ٹوٹا
مَیں ایک تارہ ہوں گردشوں میں
فلک سے جیسے شہاب ٹوٹا
ہاں اُس کی خوشبُو بھی بکھری ایسے
کہ جیسے جامِ شراب ٹوٹا

148
وصالِ یار اب تو خواب ہوتا جا رہا ہے
یہ دِل اُس کے لیے بے تاب ہوتا جا رہا ہے
یہ کیسا دشتِ حیرت ہے جہاں ہم آ گئے ہیں
کہ پیاسا دُھوپ میں سیراب ہوتا جا رہا ہے
بہت سے لوگ جائیں گے اُسے اب ڈھونڈ نے کو
وفا کا نام بھی نایاب ہوتا جا رہا ہے

0
134
کون وہم و گماں میں رہتا ہے
ذِکر کس کا بیاں میں رہتا ہے
اب جِسے تُم تلاش کرتے ہو
اب وہی کہکشاں میں رہتا ہے
پاؤں ٹِکتے نہیں زمیں پہ مگر
آدمی آسماں میں رہتا ہے

104
حادثے عجیب تھے
جو مرا نصیب تھے
آ کیوں وہ دُور ہیں
کل مرے قریب تھے
آ گئے گزر کے ہم
راستے مہیب تھے

151
پیار کا اِک جہاں ہو نئے سال میں
ہر بشر شادماں ہو نئے سال میں
برکتیں، نعمتیں بھی برستی رہیں
ہر خوشی بیکراں ہو نئے سال میں
اِس وبائے کرونا کا ہو خاتمہ
زندگی پھر رواں ہو نئے سال میں

140
مُجھے تُم سے گَر عِشق کافر نہ ہوتا
غزل تُم نہ ہوتی، مَیں شاعر نہ ہوتا
مری ذات کی تلخیاں گَر نہ ہوتیں!
وہ گُفتار شیریں کا ماہر نہ ہوتا
بٹھکتا رہا ہجر کی وادیوں میں
وگرنہ کبھی بھی مَیں صابر نہ ہوتا

160
میری غزلوں کے اشعار میں تم ہو
میرے گیتوں کی جھنکار میں تم ہو
صرف تمہی ہو جاوید ! یہ سن لو
میرے وعدوں کے اقرار میں تم ہو

126
ہمیشہ جستجو تیری
مُجھے ہے آرزُو تیری
بھلی لگتی ہے کانوں کو
شگفتہ گفتگو تیری
جِسے خوابوں میں دیکھا تھا
وہ صورت ہو بہو تیری

107
اپنا تن من جلا رہا ہوں مَیں
عشق میں مُبتلا رہا ہوں مَیں
دیکھ بارش کے رُوٹھ جانے پر
کیسے پودے لگا رہا ہوں مَیں
تُونے دیکھا نہیں مری جانب
تیرے دَر پر پڑا رہا ہوں مَیں

200
یہی اُمید ہو جائے
تمہاری دید ہو جائے
کبھی جاویدؔ آئے تو
ہماری عید ہو جائے

95
کبھی لوٹ آئیں بہاروں کے موسم
وہ چاہت کے رنگیں نظاروں کے موسم
بہت یاد آتی ہیں بارش کی راتیں
وہ کاغذ کی ناؤ غباروں کے موسم
وہ بچپن کے دن لوٹ کر کب ہیں آئے
کہاں کھو گئے چاند تاروں کے موسم

0
225
رات کے اندھیروں میں ناچتی ہے چاندنی
پُو جو پھُوٹنے لگے بھاگتی ہے چاندنی
دیکھتا ہے جس طرح چھُپ کے کوئی دِلرُبا
نیم وا دریچوں سے جھانکتی ہے چاندنی
دھڑکنوں کی تھاپ پر چاندنی ہے رقص میں
رات کے سکوت میں ہانپتی ہے چاندنی

107
عشق ہے یا بلا ہے کیا کہیے
ضبط کی انتہا ہے کیا کہیے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی میں
درد ہے رت جگا ہے کیا کہیے
گونجتی ہے جو اب بھی کانوں میں
میرے دل کی صدا ہے کیا کہیے

2
250
عجب ہے فطرتِ آدم کہ یہ اِمکان ہوتا ہے
کبھی اِنسان ہوتا ہے ، کبھی حیوان ہوتا ہے
زمیں کو روند جاتا ہے ، یہ جب سُلطان ہوتا ہے
درندہ بن کے بھی یہ صورتِ اِنسان ہوتا ہے
کبھی عورت کی حُرمت کا یہی دربان ہوتا ہے
کبھی وحشت کے پردے میں یہی شیطان ہوتا ہے

123
اپنے گھر سے وطن سے وفا کیجئے
اَمن ہو قریہ قریہ دُعا کیجئے
جس سے مٹنے لگیں نفرتیں چار سُو
کام کوئی تو ایسا نیا کیجئے
پھول کلیاں سبھی مسکراتی رہیں
پیدا ایسی وطن میں فضا کیجئے

195
چھوڑ جاؤں گا تمہارے درمیاں
تلخ و شیریں زندگی کی داستاں
مجھ کو قسمت کا ستارہ نہ ملا
کیسے لا دیتا مَیں تجھ کو کہکشاں
ایک تنہا چاند شب کی گود میں
بھر رہا ہے آج بھی وہ سسکیاں

3
331
راستی پہچان ہونی چاہیے
صورتِ ایمان ہونی چاہیے
صبحِ نو تخلیق کرنے کے لئے
مشعلِ عرفان ہونی چاہیے
پارسا ہونے سے پہلے سوچ لے
خصلتِ انسان ہونی چاہیے

221