یہ مجھ پہ کیسا عذاب ٹوٹا
کہ تجھ سے ملنے کا خواب ٹوٹا
مَیں ایک تارہ ہوں گردشوں میں
فلک سے جیسے شہاب ٹوٹا
ہاں اُس کی خوشبُو بھی بکھری ایسے
کہ جیسے جامِ شراب ٹوٹا
جہاں سے کوئی گزر گیا ہے
کہ جیسے کوئی حَباب ٹوٹا
ہر ایک جانب ہے پانی پانی
کہ آج سحرِ سَحاب ٹوٹا
وہ ملنے آیا ہے کھُل کھُلا کے
بلآخر اُس کا حِجاب ٹوٹا
عجب ہے جاویدؔ روشنی سی
کسی کا بندِ نقاب ٹوٹا

157