مَیں نے دیپ جلائے ہیں
کتنے بادل چھائے ہیں
اُس نے لوٹ کے آنا تھا
ڈھل گئے شام کے سائے ہیں
میرے کمرے میں اُس نے
آ کر پھول لگائے ہیں
اُس نے اپنی اُلفت کے
دِل میں دیِپ جلائے ہیں
بارش نے پھر شاخوں میں
کتنے پھول کھِلائے ہیں
پنچھی شاخ پہ بیٹھے ہیں
کتنی دُور سے آئے ہیں
اُس نے جاویدؔ ! آنکھوں میں
کیا کیا خواب سجائے ہیں

0
8