Circle Image

Imran Jailani

@36

Poetry

مدعہ دل کا کہنے کو جیسے ہی اس نے اپنے لب کھولے۔
گرویدہ ہو گئے ہیں لوگ وہ رس میٹھے انداز سے گھولے۔
تیرے لبوں کی نزاکت پھولوں کی نازک یہ قبائیں کترے۔
کلی بھی کھل کے کہے سازش ساری ہوا کی ہے جو ڈولے۔
اس نے سریلی میٹھی باتوں سے من میرا موہ لیا ہے۔
ہم بن پیئے اتنا جھومے ہیں جیسے اٹھے ہیں آئے جُھولے۔

0
2
شیرازۂ ہستی بکھرا ہے تو بکھر جانے دیتے۔
سیلاب امڈا ہے بہنے دو اب بپھر جانے دیتے۔
کرتا ہے محبت بنتا ہے اب اسکا پجاری کیسے۔
پر تولتا ہے یہ ایسا کرتب تو کر جانے دیتے۔
پرواز کر جانتا ہے اک جست پر وقت آیا۔
پرواز اونچی اڑا ہے اب غوطے بھر جانے دیتے۔

0
2
دیکھ منظر خوبرو دل میرا طالب گار پھر ہے۔
ہے بہاریہ رنگ دلکش ایسا دل حبدار پھر ہے۔
لب گلابی سرخ اب رخسار ہیں اچھے لگے ہیں۔
ان جھکائی ترچھی نظروں میں بھرا خمار پھر ہے۔
چہرہ سج نکھرا ہے اس رنگیں بدن پر چاندنی سے۔
بکھرے شانوں پر سیہ گیسو بھلا اوتار پھر ہے۔

0
2
گر کملی والے کی بزم سجائی نہ ہوتی۔
تب ممکن اپنی تو وہاں پہ رسائی نہ ہوتی۔
عشق نبی سے زندگی پھر ہوتی ہے مکمل۔
بنتی زندگی کیسے یہ شمع جلائی نہ ہوتی۔
ہے تقلید محمد اصل میں روح ہے ساری۔
گر ہوتی نہ اطاعت جلوہ نمائی نہ ہوتی۔

0
3
ہر بات سے بات نکلتی ہے اثبات کی نفی نہیں ہوتی۔
ہم تشنہ لب ہیں بات تو کر کیسے کم تلخی نہیں ہوتی۔
جب تیری بات بنے ہے کیوں کر تلخ کلامی دوبارہ ہو۔
اک کوشش اور کر دیکھو حاضر ہیں بد نظمی نہیں ہوتی۔
اس تیری عنایت پر اب اپنی شفاعت پر اک دعوی ہے۔
تم بات تو کر کے دیکھو کیسے ہم آہنگی نہیں ہوتی۔

0
5
نرم و نازک سے بدن پر رکھے حسیں خدو خال کے پردے ہیں۔
میرا دل چیرو جگر کو کریدو جینے تک سب پھندے ہیں۔
یہ نگاہوں کی مستی عاشق دریا عشق کا شوق سے کودے ہیں۔
یہ سفر جب اتنا کٹھن ہے اب اس راہ پہ تیرے بندے ہیں۔
شب خواب میں بیداری ایسے ہوئی جیسے رو بہ رو آئے ہیں۔
ہم گبھرا اٹھے سارا منظر اوجھل ہے بے چین یہ دیدے ہیں۔

0
3
تیرا حکم ہو فوری اس پر اک تکمیل ہو جائے گی۔
پورا عمل ہو گا اس بات کی بھی تفصیل ہو جائے گی۔
پھر ہمت کی ایک ہی جست سے ہر منزل طے کر لوں گا۔
مشکل آساں ہو کر خود ہی کوئی سبیل ہو جائے گی۔
کوشش کر دیکھو مت سوچو ملتا ہے اس کا صلہ کیا۔
جب محنت سے زندگی بدلے خود سے کفیل ہو جائے گی۔

0
4
بھر لو کلاوے میں الفت اب چہرے اتارے جائیں گے۔
آگ اٹھے گی آسماں تک بڑھ کر یہ شرارے جائیں گے۔
آؤ وقت ہے اب اپنے آداب سنوارتے ہیں ہم سب۔
لوگ ہیں جذباتی کتنے اب چاند ستارے جائیں گے۔
گم گشتہ حالات کو دوش نہ دو اب دوستو سوچو تو۔
وہ دن دور نہیں ہے جس دن نام پکارے جائیں گے۔

0
8
حالت میرے دل کی سمجھا تھا ایسا انجان نہ تھا۔
ملنا مشکل تھا لیکن یوں بچھڑنا بھی آسان نہ تھا۔
کچھ پل میرے ساتھ بٹاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔
مل کر بیٹھتے دو دل تیرا ہونا کچھ نقصان نہ تھا۔
اک کوشش کرتا تو مگر اس بات طرف کچھ دھیان نہ تھا۔
سوچ وسیع تھی عالی ظرف بصیرت کا فقدان نہ تھا۔

0
7
سر کش ہو، ہوا سامنے ہے ایک دیا ،کیا ہے۔
تقدیر بدل اپنی، لے تدبیر دعا، کیا ہے۔
اب عیاں، حقیقت جو ہوئی، تیری انا، کیا ہے۔
بد مست ،بتا، راکھ پڑی ہے، تو بچا، کیا ہے۔
اب آستیں اندر ،چھپ کر سانپ یوں بیٹھے ہیں۔
اک گھات لگائی ،اندر جال، پھنسا ،کیا ہے۔

0
10
ہوائے سرد نم زدہ نہ کر تو اس دیار کو۔
خیال ایسا دے نہ کر طلب تو حب اسار کو۔
محبتوں کے شہر میں ہیں دیپ حب چمک رہے۔
وفاؤں کی یہ سر زمین سمجھے تیرے پیار کو۔
پرندے نور کے بسیرے میں یوں آ کے چہکے ہیں۔
کھلے ہیں پھول ہے مقام اونچا لالہ زار کو۔

0
8
یوں عجز دسترس پہ ہے نیاز میرے یار کی۔
سند کہا ہوں بخت خوش نواز میرے یار کی۔
سحر نسیم کیا نسیم بحر کیا یہ قصہ کیا۔
کہ اب کی بار مختلف مجاز میرے یار کی۔
یہ برکھا رت ہو گرم سرد رت بہار پھر خزاں۔
سخن وروں سے ہے بھلی جواز میرے یار کی۔

0
10
لو بات ہو زندگی تو انعام کی جائے۔
ہر روز کی اب کہانی تمام کی جائے۔
یہ شام کہے راہ لو اپنے گھر کی۔
دل کہتا ہے کہ آنکھوں میں شام کی جائے۔
ہم خوش کہ مزاج پرسی کی بات اچھی۔
کیوں نیند یہ اپنی نظرِ جام کی جائے۔

0
16
تم پھولوں کی خوشبو ہو کلیوں کی مسکان ہو۔
شبنم کی اک بوند ہو سبزے کی تم جان ہو۔
وادی کا سبزہ ہو دریا کی روانی ہو تم۔
کوئل کی تم کوک ہو ہر دل کا میلان ہو۔
ہو چاند کی چاندنی تاروں کی تم پر چمک۔
پورا یہ ارماں ہو میرے دل کے مہمان ہو۔

0
13
میں نوا پرجوش ہوں تیری صدا شر شوریدہ
میں بصیرت رکھتا ہوں تو آوازِ غلطیدہ۔
میں راز جہاں ہوں سوچِ کن فیکوں ہوں میں۔
میں جہاں ہوں یہاں ہوں تیری مثلِ فہمیدہ۔
تو دلیل فضول سی ہے اک اب پھر آوارہ۔
خود خار ہوا تو انکاری رہ رنجیدہ۔

0
14
اپنے دل سے پیار محبت کی معیاری گفتگو کر لوں۔
کچھ پل بیت گئے ہیں بے مقصد اب با مقصد جستجو کر لوں۔
وقت کی تیزی رفتاری دوبارہ موقع دے نہ دے تمہیں۔
اب خود سے دھل کر آبے تازہ سے میں بھی تو وضو کر لوں۔
زندگی اس کی امانت سانس عطا کیے اک نعمت ملی ہے۔
یہ لمحات غنیمت جان کے اپنا یہ دامن رفو کر لوں۔

0
16
بہار آنے سے پہلے بے زار دل تھا کب غم گسار آئے۔
فگار دل کر جگر کو چھلنی لیا تو کب سوگ وار آئے۔
خط و کتابت سے کام چلتا تو لکھ کے قاصد کو نامہ دیتے۔
نہ چین ہے دل کو چارہ گر ہم بتا چلے ہیں قرار آئے۔
لو اس کے آنے سے ہر سو گل کھل ہزار ہا بن شمار آئے۔
یہ دل کا آنگن ہوا ہے روشن جو مہکے کھل لالہ زار آئے۔

0
26
اے عمرِ رواں تو بھی ایسے خواب نہ لایا کر۔
یوں پردے بہت ہیں تو اور حجاب نہ لایا کر۔
پھر کب بیداری ہے تعبیر تو کرنے دے۔
مقبول ہو جاٶں گا ایسے جناب نہ لایا کر۔
اس موسم کی کچھ دیر پرستش کرنے دے۔
چہرے پڑھے ہیں کئی ایسے نصاب نہ لایا کر۔

0
20
تنگی اے دل وہ مٹا جاتے۔
مجھ پر اک احساں بنا جاتے۔
کر راز نیاز کی کچھ باتیں۔
کچھ وقت تو اپنا بٹا جاتے۔
مل بیٹھ کے راز و نیاز سہی۔
آتے پہچان کرا جاتے۔

0
25
اب تاروں بھری اک رات یہ ہو
تم ساتھ ہو شب شب رات یہ ہو۔
میرے دامن سے لپٹ ایسے۔
جا بچھڑنے والی نہ بات یہ ہو۔
اپنے اس دل میں اتارو یوں۔
آنکھوں میں نہ اب برسات یہ ہو۔

0
34
میری مانو اسے تو  بھلانے کی عادت ہے۔
کیسے جھوٹ میں کہہ دوں اب میری قسمت ہے۔
اب  انجان بنے بیٹھے ہیں  انا  کے پجاری۔
میں بھی انا رکھتا ہوں منانے کی کب فرصت ہے۔
 بات کو  کچھ محسوس تو کرتے ہوں گے یقیناً۔
تب  احساس ہو جب جانے میری شامت ہے۔

0
26
چاندنی چاند سے ہے دلکش نظارا ہے۔
میرا تو ہے اب تیرا ایک سہارا ہے۔
تم جو بلا لیتے ہم سر کے بل آتے۔
لیکن تو نے کب مجھ جان پکارا ہے۔
ان پھولوں میں بھینی بھینی خوشبو ہے۔
اور تو خوشبو زار بہت دل پیارا ہے۔

0
20
داغ لگا ہر زخم سہا دل مضطر اپنا سلائے لیا۔
شام ملا تو بہانہ کیا دامن ایسے بچائے لیا۔
دلکش تیری ادا ہے ایسی ادا پر جان و دل صدقے۔
اپنے ہاتھوں کا ہالہ کر پھر دل سا سجا کے چھپائے لیا۔
خون جگر ہے میرا عرق یہ تجھے اب رنگ لگا ہے کیوں۔
کیا سمجھا هے جب چاہا لکھا جب چاہا مٹائے لیا۔

0
20
ہو کے آتش ہے جلا دل بجھا نہیں۔
لا دوا عشق ہے ملتی دوا نہیں۔
تو بتا ایک یہ صورت ہی بنتی ہے۔
ہے دعا بدلے مگر کچھ دوا نہیں۔
ہو جدا تن سے مثل جل کباب کے۔
نہ رہا خاکی یہ خاکِ شفا نہیں۔

0
22
سنیے آج ہی ملیے حضور یوں کل تک وعدہ نہیں کر سکتے۔
عمر رواں آہستہ چل جذبات اعادہ نہیں کر سکتے۔
آؤ سنور جائیں مشکل یہ سفر ہے مسئلہ حل کرتے ہیں۔
حد اندر رہ کم از کم یہ گناہ زیادہ نہیں کر سکتے۔
جو پلے ہوں ظلمت میں کیا جانیں لدنی کی لذتیں یکسر۔
سامنا کب کرتے ہیں جھوٹے لوگ لبادہ نہیں کر سکتے۔

2
45
مجھ کو عطا کر میرے خدا میں  خطا ہی خطا۔
مجھ پر  کرم  یہ تیرا اتنا جود  و سخا۔
تیرے در پر ہوں میں پھر کب  کا یوں کھڑا۔
کر لے دعا الحمد سے ہے سبحاں اللہ ۔
لائق حمد  و  ثنا  سب تجھ سے ہے ناطہ۔
تیرے غضب سے چھایا ہر سو  سناٹا۔

0
31
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان رہے۔
 میرا سارا تن نوچ لے جب تک جان رہے۔ 
جب کالی زلفیں جبیں پر لہرا جاتی ہیں۔ 
مشکل جو پڑے حل پاس بڑا آسان رہے۔ 
یہ لباس میں قدرت نے قامت بخشی اتنی۔ 
یہ نشانہ آنکھ بناوٹ تیر کمان رہے۔ 

0
52
شبِ فرقت میں جم میں جام لے کر ڈالتا ہوں میں۔
یوں سرور آنے لگتا ہے کہ ہر غم ٹالتا ہوں میں۔
طلب مے نوشی میری توبہ ہے ہر بار توبہ ہے۔
صدا لگتی طلب کرتا ہوں وحشت ٹالتا ہوں میں۔
جبھی مے باقی رہتی ہوش تھا اب کوچ ہے میرا۔
پو پھوٹے صبح ابھرے رات بھر ندرالتا ہوں میں۔

0
135
اس نے مجھے اب جان سے مارنے پھر سے قسم کھا رکھی ہے۔
میں نے اسے ایمان سے پھر سے پکارنے کی اٹھا رکھی ہے ۔
کچھ ہی سمجھ کر اس نے اپنی نظر میری جانب کی ہے۔
ہم نے کب کی طوفان سے بگاڑنے کی بنا رکھی ہے۔
بگڑے گی نہیں تو بن ہی جاۓ گی کچھ تو کرو تم بھی۔
ہم نے بھی انہیں آسماں سے اتارنے کی لگا رکھی ہے ۔

0
63
ایسا کون جو میرے مقابل بہکا رہا ہے۔
اب خود جا کر دور وہ کیوں دل دھکا رہا ہے۔
جب بھی بلایا جاتا ہم سے برہم ہوتا۔
کر کے اشاروں کنایوں میں کیا سمجھا رہا ہے۔
ایسا بھی کیا جو وہ سمجھ سکا دھیان نہ کیا کچھ۔
ایسا پاس ہے کیا اب جس سے بہکا رہا ہے۔

0
44
اب آنکھ کیا اس کا اشارہ کیا تھا۔
ندی کیا ندی کا کنارہ کیا تھا۔
طوفان اٹھا تھا دل ہی دل میں اک۔
لہروں نے لہروں سے پکارا کیا تھا۔
ڈوبے جاتے تو کیا بچ جاتے تو کیا۔
بے بس کے آگے پھر سہارا کیا تھا۔

2
85
جب الفت بڑھ کے گراں بن جائے خواب اکسانے لگتے ہیں۔
ہم دل دے بیٹھے ہیں جیتے جی پاگل دیوانے لگتے ہیں۔
آنے والے کب آئیں گے خود کچھ معلوم نہیں ہے اب۔
کیوں کر ایسی باتیں تم یاد کرا دہرانے لگتے ہیں۔
مجھ سے ملنے کی تجھے فرصت کب ملی میرے ہم راہی۔
کہہ دو ایسی باتیں کرتے ہیں کتنے زمانے لگتے ہیں۔

0
65
اب الفت دیپ جلایا ہے کہ محبت سب مل جاۓ گی۔
یوں دعا کا اثر ہے لگا اب آتی قضا ساری ٹل جاۓ گی۔
جب سے چمن میں بہار نمود ہوئی ہے یوں خوشبو بکھیرے ہے۔
پھولوں کی مہک آۓ گی اڑا لے دور ہوا چل جاۓ گی۔
خاموشی رات کی چھٹکے چاند یوں نکلے چاندنی پھیلے گی۔
اس بات کو پھیلایا ہے سب تاریکی بھی ڈھل جاۓ گی۔

62
شب بھر پھر میرے سامنے تیرا عکس رہا۔
خنکی تھی ہوا میں کتنا تیرا لمس رہا۔
یہ نگاہیں پیاسی رہیں ہیں دید کی آس لگی۔
یوں لگا ہے جیسے ساری عمر سے ترس رہا۔
قیدی نے ہر کوشش کی رہائی پانے کی۔
نہ خلاصی ہوئی پابندِ بے جا حبس رہا۔

0
53
اب چل آۓ کبھی میرا مہمان ہو جاۓ۔
ہر سو بہار سجے رت ساری جوان ہو جاۓ۔
ہم تیری آمد پر خوش ہوں گے اتنا ہمسر۔
زندگی میری بدلے اک احسان ہو جاۓ۔
تیرے گیسوؤں کے پیچ و خم سے بچا گر۔
سیرت گر ہے بدلے خفا اوسان ہو جاۓ۔

0
52
اک نام لینے کی کی ہے پھر جسارت ابھی۔
اس جسم کو ملنے پر ہے ہر حرارت ابھی۔
بے چین ہے شوخ دل شوقین قلب و نظر۔
ملنے لگی زندگی کو سب بشارت ابھی۔
تیرے کرم سے اے حسنِ آفریں نازنیں۔
یہ دل بنا دوستی کی پھر صدارت ابھی۔

0
76
شب نمی کو پھولوں کا انتخاب لکھتا ہوں۔
اب حسن کو میں اک شعلہ شباب لکھتا ہوں۔
کلیاں جو بنتی ہیں پھول کھلتے جاتے ہیں۔
حرف ملتے ہیں بُن الفاظ خواب لکھتا ہوں۔
خود سے لفظوں کو چن کر انتخاب کرتے ہو۔
جب غزل میں لکھتا ہوں لاجواب لکھتا ہوں۔

1
291
اے بادِ بہاری پھر سے فلک سے نجوم تو لا۔
پھولوں کی منڈیر پہ تتلیاں اب کے ہجوم تو لا۔
اب قلب ہے دھڑکا امیدِ وفا پھر ہے چمکا۔
اب خاک ہو کر زمیں کی تب آسماں چوم تو لا۔
کر کام تو تیری جیت ہو گی اسی لشکر سے۔
عنوان دیے ہیں ڈھونڈ کے اب مقسوم تو لا۔

60
میرے خداۓ بزرگ و برتر اب اس قابل بن تو سکوں ۔
دامن رحمت سے بھر جاۓ ایسا ساحل بن تو سکوں ۔
غفلت کی ہر نیند سے اب بیدار ہو جاؤں میں بھی ایسے۔
کرنے لگوں انصاف میں خود اب ایسا عادل بن تو سکوں۔
پھر تیری تمام عمر میں پرستش کرنے لگوں ایسے۔
میرے خدا ہو عطا اب ایسا جذبہ بادل بن تو سکوں۔

0
62
تو چاند ستاروں سے گریزاں نہ ہوا کر۔
وہ دور افق پر ہے تو نازاں نہ ہوا کر۔
اپنی یہ نمائش کچھ کم کر دے اے جانم۔
اندر رہ کے باہر آویزاں نہ ہوا کر۔
سن دل کی صدا ایسے ارزاں نہ ہوا کر۔
آواز لگا کر خود ارزاں نہ ہوا کر۔

0
56
آ ان کلیوں پر پھولوں پر پرجوش شباب سجاتے ہیں۔
دلبر مت چھیڑو اب میرے سب درد حساب لگاتے ہیں۔
میں بنانے والے کو جب دیکھتا ہوں جو قادر مطلق ہے۔
اب ہم نفس و ہمنوا عجیب عجب القاب بلاتے ہیں۔
دیکھو یہ جھکی نظریں کھلی بانہیں حوصلہ افزائی کرتے۔
میرے ارمانوں کو پورا کرتے ہیں یا گرداب دلاتے ہیں۔

0
49
اے جہاں والو میں آج اجالا کر جاؤں۔
جانے سے پہلے کام نرالا کر جاؤں۔
میری شفقت گیری کچھ کر نہ سکو گے تم۔
یوں گمانِ بد کو مٹا حب بالا کر جاؤں۔
اک شمع جلی ہے پھر نہ بجھے گی ہوں آندھیاں بھی۔
اب ایسا ہو گا ہوا پر چالا کر جاؤں۔

0
78