| بہار آنے سے پہلے بے زار دل تھا کب غم گسار آئے۔
|
| فگار دل کر جگر کو چھلنی لیا تو کب سوگوار آئے۔
|
| اگر خطوں سے ہی دل بہلتا، پیام قاصد کو ہم دیا تھا
|
| مگر نہ دل کو ملی تسلّی، نہ زخم دل کو قرار آئے۔
|
| لو اس کے آنے سے ہر سو گل کھل ہزار ہا بن شمار آئے۔
|
| یہ دل کا آنگن ہوا ہے روشن، مہک اُٹھے لالہ زار آئے۔
|
|
|