Circle Image

Imran Jailani

@36

3636

تیری عطا میرے خدا میں  ہوں خطا پہ خطا۔
مجھ پر  کرم  یہ تیرا اتنا جود  و سخا۔
تیرے در پر ہوں میں پھر کب  کا ہی کھڑا۔
میری  دعا سن حمد کی ہے سبحان اللہ ۔
لائق حمد  و  ثنا  سب تجھ سے ہے ناطہ۔
تیرے غضب کا چھایا ہے ہر سو  سناٹا۔

0
2
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان رہے۔
میرا سارا تن کھینچ لے جب تک جان رہے۔
اب کالی سی زلفیں لہراتی ہیں جب جبیں پر۔
مشکل جو پڑے حل اس کے پاس آسان رہے۔
یہ لباس میں قدرت نے قامت بخشی اتنی۔
یہ نشانہ آنکھ بناوٹ تیر کمان رہے۔

0
22
شبِ فرقت میں جم میں جام لے کے ڈالتا ہوں میں۔
یوں سرور سا نظر میں گم ہے سب غم ٹالتا ہوں میں۔
جبھی مے باقی رہتی ہوش تھا اب کوچ ہے میرا۔
شفق نو صبح کی ہے شب کو روشن جھانکتا ہوں میں۔
بھلے دل سوزی کو ڈر خود کے شرسے ہے چلو پھر سے۔
چنوں خود وصف اچھےایسے خود کو ڈھالتا ہوں میں۔

0
28
اس نے مجھے اب جان سے مارنے پھر سے قسم کھا رکھی ہے۔
میں نے اسے ایمان سے پھر سے پکارنے کی اٹھا رکھی ہے ۔
کچھ ہی سمجھ کر اس نے اپنی نظر میری جانب کی ہے۔
ہم نے کب کی طوفان سے بگاڑنے کی بنا رکھی ہے۔
بگڑے گی نہیں تو بن ہی جاۓ گی کچھ تو کرو تم بھی۔
ہم نے بھی انہیں آسماں سے اتارنے کی لگا رکھی ہے ۔

0
35
پھر آج حسن کی نمائش کم نہیں ہے جہاں میں۔
جس جم کی تلاش ہے ایسا جم نہیں ہے جہاں میں۔
ہمیں جس جذبے کی لگن ہے وہ جذبہ کہاں ہے۔
جس نغمے کو سننا چاہا ہے دم نہیں ہے جہاں میں۔
وہ فریادیں وہ آہیں باتیں وہ یادیں تھیں ۔
فریاد یہ اب سما پہلے سی نم نہیں ہے جہاں میں۔

0
33
پھر ہوا کا ایسا جھونکا سا چلا ہے۔
آئی بہار کا رخ متوالا سا چلا ہے۔
لہلہا کر رہے سرسبز و شاداب شجر۔
کچھ ہوا ہے اب وہ سنبھلا سا چلا ہے۔
بچ کر چلنا پیاسے نہ رہ جانا پیارے۔
نم آنکھیں ہیں کیوں پیاسا سا چلا ہے۔

0
25
سامنے میرے پھر سے گزرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں ۔
جب کہ بلانا نہیں تو بپھرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔
سارا ہی ضبط مٹا کر ہم بھی دیا جلتا بجھا کر چلے ہیں۔
اب کہ ہماری انا سے سدھرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔
گرچہ ہم صابر ہیں دکھا دو ایک جھلک دیدار کی تم۔
حوصلہ بڑھاے دل میں ٹھہرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔

0
23
ہے پھر کون جو میرے مقابل بدلا رہا ہے۔
اب خود جا کر دور یوں کیوں دل دہلا رہا ہے۔
پھر ہم جب سے بلاتے تھے تو ہم سے برہم تھے۔
اب کہ اشاروں کنایوں میں کیا سمجھا رہا ہے۔
ایسا بھی کیا جو وہ سمجھ سکا دھیان نہ کیا پھر۔
کیا اس پاس تھا ایسا جس سے بہکا رہا ہے۔

0
26
گرچہ وہ تلخ مزاج ہیں رہنے دو خود تلخ ایام سے بچ۔
سخت کلام نہ ہے بجا ہے سنجیدہ کلام کلام سے بچ۔
ضدی ہے کیوں کر اپنی ضد چھوڑے گا ضد کرتا ہے ۔
اک دن خود بکھرجائے گا کرنے دو بس انجام سے بچ۔
ایک جھلک دیکھا لیا ہے چہرہ آنچل کی اوٹ سے تب۔
چاند ملا رہا خود پر اترا رہا ہے سوچِ خام سے بچ۔

0
33
اب آنکھ کیا اس کا اشارہ کیا تھا۔
ندی کیا ندی کا کنارہ کیا تھا۔
طوفان اٹھا تھا دل ہی دل میں اک۔
لہروں نے لہروں سے پکارا کیا تھا۔
ڈوبے جاتے تو کیا بچ جاتے تو کیا۔
بے بس کے آگے پھر سہارا کیا تھا۔

2
53
الفت ہے گراں خواب اکسانے سے لگتے ہیں۔
دل دیے خاطر ہم دیوانے سے لگتے ہیں۔
آنے والے کب آئیں کچھ معلوم نہیں ہے۔
ایسی ہی کیوں باتیں دہرانے سے لگتے ہیں۔
مجھ سے ملنے کی تجھے فرصت کب ملی ہے۔
کہہ دو ایسی باتوں زمانے سے لگتے ہیں۔

0
28
چاندنی چاند سے ہے دل کش نظارا ہے۔
میرا تو ہے اب تیرا ہی ایک سہارا ہے۔
جب تم یوں بلا لیتے تو سر کے بل آتے۔
لیکن تو نے کب مجھ جان پکارا ہے۔
ان پھولوں میں بھینی بھینی خوشبو ہے۔
اور تو خوش بو سے بھی بہت دل پیارا ہے۔

29
اب الفت دیپ جلایا ہے کہ محبت سب مل جاۓ گی۔
کہ دعا جو اثر کرنے لگے تو آتی قضا بھی ٹل جاۓ گی۔
خاموشی رات کی چھٹکے چاند یوں نکلے چاندنی پھیلے گی۔
اس بات کو پھیلایا ہے سب تاریکی بھی ڈھل جاۓ گی۔
جب سے چمن میں بہار نمود ہوئی فضا خوش بو بکھیر دی ہے۔
پھولوں کی مہک آۓ گی ہوا اٹھا دور لے چل جاۓ گی۔

28
ان کی محفل میں جا کے اسے بھی بلا لیا ہے۔
پھل کلیوں سے ان کا دامن بھی سجا لیا ہے۔
سیہ رات میں تیری یاد کو دل میں بسا لیا ہے۔
دیا ہے جو غم اس غم سے دل کو بہلا لیا ہے۔
میری اب سنتے نہیں نہ سنیں تو نہ بات سہی۔
کھلی بات کی اہلِ بزم انصاف کرا لیا ہے۔

0
23
جب شب بھر میرے پھر سے تیرا عکس رہا۔
کہ ہوا میں خنکی رہی سدا تیرا لمس رہا۔
کہ نگاہیں ہی پیاسی رہیں دید کی آس لگا۔
سب لگ رہا ہے جیسے پھر عمر ہی ترس رہا۔
قیدی نے قید رہائی کی کوشش کی تھی۔
پھر سے نجات نہ مل سکی قفسی کو قیدِِ قفس رہا۔

0
31
تو کبھی آۓ اور میرا مہمان ہو جاۓ۔
ہر سو بہار آ جاۓ رت بھی جوان ہو جاۓ۔
ہم آمد کے اتنے طالب ہیں جو تو آ جائے۔
زندگی میری بدلے اب احسان ہو جاۓ۔
جو تیرے گیسوؤں کے پیچ و خم سے بچ جاۓ۔
تو وہ عام نہ خاصا اک انسان ہو جاۓ۔

0
30
اب نام لینے کی کی ہے جو جسارت ابھی۔
پھر جسم کو ملنے پر ہے سب حرارت ابھی۔
بے چینی دل شوخی شوقینی ہو قلب و نظر۔
ملنے لگی زندگی کو سب بشارت ابھی۔
تیرے کرم سے اے حسنِ آفریں نازنیں۔
یہ دل بنا دوستی کی پھر صدارت ابھی۔

0
36
ہے زندگی اک سفر اس کو سہانا بناتے ہیں۔
نفرت کو محبت رنگ لا کر چڑھاتے ہیں۔
نہ تغافل تم کرو مثبت رغبت ندرت پھر۔
سیرت کا لہو دے صورت میں دوڑاتے ہیں۔

0
42
اس چنگل سے دامن چھڑا کر بچا لیا ہے۔
دشمن موہ لینے سے خود کو ہٹا کے بچا لیا ہے۔
تم اب شفا پکڑا سکتے نہ تھے پھر عمر لیے۔
اب ایسی مصیبت سے چھٹکارا پا لیا ہے۔
کبھی خود ہی سی کی ہیں کبھی خاموش رہے ہیں ہم۔
جی اِدھر کے اُدھر کے خیالوں سے بچا لیا ہے۔

0
30
کیے اب سیرت کی انتہا بند ہی کمرے میں۔
لیے ساری بصیرت کا مزہ بند ہی کمرے میں۔
لگا ہونے حسن عریاں پھر آنے لگی یہ صدا۔
ہے سلوک زیادہ ناروا بند ہی کمرے میں۔
سبقت لینے پہ تلے ہیں اب بچاۓ خدا۔
کہ ہے سارا جلوس بہت بڑا بند ہی کمرے میں۔

0
26
خواب میں بھی حجاب لے آۓ وصال کیسا ہے۔
آدمی ہو عجب سے کرتے ہو سوال کیسا ہے۔
دل میں جو ارماں بھی تھا سارا ہی نکال ڈالا ہے۔
دیکھ لیا تو نے بتا تمہیں ملال کیسا ہے۔
کیسی یہ کر رہے کہاں ڈوب چلے ہو اتنے تم۔
کیا تھے دکھا چلے ہو کیا بن گیا حال کیسا ہے۔

0
26
شب وصل کو آنے دو اسےاپنے دل کا حال سنانے دو۔
آرام ابھی کر لوں طبیعت سنبھلی ہے من کو بہلانے دو۔
کہ مزاج یہ اپنا نرم رہے گا جہاں میں کچھ بھی ہو جائے۔
مہمانِ محفل کو آنا ہے اب محفل میں جانے دو۔
کچھ خوش ہیں بستی میں کچھ مست ہیں مستی میں سب کا مزاج اپنا۔
کچھ خوش نہیں ہوتے کسی کو اپنا گھر تک جلا آنے دو۔

0
16
کلی پھول کو شبنم انتخاب لکھتا ہوں۔
اب حسن کو میں اک شعلہ شباب لکھتا ہوں۔
خود سے لفظوں کو چن کر انتخاب کرتے ہو۔
لکھتا ہوں غزل جو وہ لاجواب لکھتا ہوں۔
میرا پھر توکل اس ذات پر بے حد ہے جب۔
جب عطا ہی کرتا ہے کیا حساب لکھتا ہوں۔

1
248
چپکے سے آتے دل کی کہتے اور سنا کر چل دیے ہوتے۔
پھر آنسو نہ چھلکتے جو روٹھے کو منا کر چل دیے ہوتے۔
آہ و زاری ختم ہو جاتی تیرے پہ بنتی کچھ سمجھ آتی۔
آنگن میں اپنا دل میرے سجاتے سجا کر چل دیے ہوتے۔
ہوش کہاں رہنا تھا پھر دل موج و مستی میں رہنا تھا۔
اپنے ہاتھوں سے جام پکڑ تے پلاتے پلا کر چل دیے ہوتے۔

0
34
جب سے دل سے دل مل گۓ ہیں۔
پھر سب کے اصول بدل گۓ ہیں۔
کہ شجر سے کونپل پھوٹی ہے۔
تب کلیاں پھول بھی کھل گۓ ہیں۔
جب سامنے منزل آ گئی ہے۔
اب تیرے خلل بھی نکل گۓ ہیں۔

0
27
اڑا ہوں اب سمت میں آسماں کی چھو کے آیا ہوں۔
کی ستاروں سے باتیں سب کو بتا کے آیا ہوں۔
شاہیں سے اونچا دے نام یہ لکھوا کے آیا ہوں۔
ہوا بن کے چلا ہوں مثل بنا کے آیا ہوں۔

0
32
جب شام ڈھلے گی تو پھر ایک یہ دیپ جلایا جاۓ گا۔
تب ابھرے سورج کو یہ نیا پیغام سنایا جاۓ گا۔
ان کو ایسے گر اب بتا دیں گے جن سے سب شاہی ملے گی۔
کہ محبت ہو جاۓ گی جب یہ اصول بتایا جاۓ گا۔
تب وقت ہی ایسا ہو گا کہ دل میں کوئی حسرت پھر نہ ہو گی۔
جب اپنے فن کا ان کو یہ اعجاز دکھایا جاۓ گا۔

1
37
اے بادِ بہاری پھر سے فلک سے نجوم تو لا۔
پھولوں کی منڈیر پہ تتلیاں اب کے ہجوم تو لا۔
اب قلب ہے مسکا امیدِ وفا پھر ہے چمکا۔
اب خاک ہو کر زمیں کی تب آسماں چوم تو لا۔
کر کام ہی تیری جیت ہو گی اسی لشکر سے۔
جو دیے ہیں عنواں ڈھونڈ ان کے مقسوم تو لا۔

36
اب کہ خداۓ پاک اپنا من میں اس قابل بنا سکوں ۔
دامن رحمت سے بھر جاۓ ایسا ساحل بنا سکوں ۔
غفلت کی اس نیند سے اب بیدار ہو جاؤں میں بھی پھر سے۔
کرتا رہوں انصاف میں خود کو ایسا عادل بنا سکوں۔
پھر تیری تمام پرستش زندگی بھر کرتا رہوں گا۔
اے خدا دے ایسا جذبہ خود ایسا بادل بنا سکوں۔

0
25
تو جو ابھی پھر میرے رو بہ رو ہو جائے۔
تو کتنی آسان یہ گفتگو ہو جائے۔
تب میرے دل کی پھرسب مٹ جائے خلش۔
دل کی بات ہو پھر زباں ہو بہ ہو ہو جائے۔
کوئی وہم نہ ہو جب تک تو سامنے ہو۔
بات ہو جائے گرم اپنا لہو ہو جائے۔

1
46
سن من کی دھن یہ شوقِ دھن تیرے نام کر دوں۔
تیرا ذکر ہو صبحِ نو نام شام کر دوں۔
تو رو بہ رو ہو کر مجھ سے محو گفتگو ہو۔
تجھ سے کلام کر لوں قصہ تمام کر دوں۔

1
37
اب روح سے از روئے ایماں میرا تو ہم نام ہے۔
مٹ چکی دل سوزیہ خلش اب سب ختم ہی شام ہے۔
کب کا انا کا ہے گیا اب فرق دھوپ اور چھاؤں کا۔
اب دو وفاؤں کا تو مل قصہ ادھورا بام ہے۔

0
31
زندگی اک بار ملی ہے یہ پھر مہلت نہ دے گی۔
وقت ہے تیرا اثاثہ ہے کوئی دولت نہ دے گی۔
جب گراں قیمت خزانے سب چھپے ہیں اس قدر پھر۔
وقت پر ہی کر لو ورنہ پھر اجل عجلت نہ دے گی۔

0
55
اپنے دامن سے اس داغ کو یوں مٹا دے۔
پیار ہی کر بے حساب ہی کیجیے سب بتا دے۔
تن لہو پیتی جگر کو سوختہ کرتی ہے۔
تن کی من کی تن سے من بازی لگا دے۔

0
35
وقت کبھی نہ رک سکا اور پل بھر بھی وہ ٹھہرا نہیں ہے۔
باغ میں اور بھی پھول ہی ہیں اس شاخ پہ پھر گہرا نہیں ہے۔
اب اپنا بھی وقت آئے گا جب وقت آنے کو پڑا ہے۔
آج کا وقت بدل چکا ہے اس وقت پہ پھر پہرا نہیں ہے۔

0
26
تو چاند ستاروں سے گریزاں نہ ہوا کر۔
آواز کی ہے باہر ارزاں نہ ہوا کر۔
دل تیری گرفتاری سے آزاد نہیں ہے۔
اب قید رہے گا تو لرزاں نہ ہوا کر۔
جب یہ زماں ہر حال میں ہر طرح سے پرکھا۔
رو لو اسے اب تو یوں لغزاں نہ ہوا کر۔

0
22
جب تم کلیوں کا پھولوں کا پرجوش شباب ہی کرتے ہو۔
میرے دلبر اب چھیڑتے ہو یا میرا حساب ہی کرتے ہو۔
میں بنانے والے کو جب دیکھتا ہوں جو قادر مطلق ہے۔
اب ہم نفس و ہمنوا عجیب ہے یوں القاب ہی کرتے ہو۔
یہ جھکی نظریں کھلی بانہیں دیکھ کے حوصلہ افزائی ملی ہے۔
میرے ارمانوں کی بات ہی کرتے ہو کہ جواب ہی کرتے ہو۔

0
29
رستے سے ہٹتا بھی نہیں اور مجھے کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا۔
پھرباہر سے سنورتا ہے اندر کی صفائی بھی نہیں دیتا۔
ہم وہ کر کے دکھائیں کہ ڈور کی طرح آۓ جانب منزل۔
وہ آواز بھی اب نہیں دیتا اور سنائی بھی نہیں دیتا۔
رت جگا ہے اب رات کا منظر ہے منظر بے حد سہانا ہے۔
ایسے قید کیا ہے اس نے کہ قیدی دہائی بھی نہیں دیتا۔

0
31
نرم و نازک ہے یہ بدن جیسا اب پھول گلاب کا ہے۔
اب اندر مشکل ایسے جیسے سوال حساب کا ہے۔
سب ابھی آنے جانے کا اک سلسلہ سا لگا ہوا ہے۔
یوں سمجھا ہوا ہے جیسے یہ کام کسی نواب کا ہے۔
سب کچھ عیاں ہو جاۓ گا اس بات کے بارے میں اے دل۔
جب یہ کتاب کھلی پتہ چلا مسلہ سارا باب کا ہے۔

0
31
جہاں والو آج اجالا کر کے جاؤں گا۔
اب پہلے کام نرالا کر کے جاؤں گا۔
تم پھر میری بھی شفقت گیری نہ کر سکو گے ۔
یہ گماں بد کو تہہ و بالا کر کے جاؤں گا۔
جلی شمع نہ پھر بجھے گی چاہے چلیں آندھیاں بھی۔
ہو گا ایسا ہوا پر چالا کر کے جاؤں گا۔

0
51