شب نمی کو پھولوں کا انتخاب لکھتا ہوں
اب حسن کو میں اک شعلہ شباب لکھتا ہوں
کلیاں جو بنتی ہیں، پھول کھلتے جاتے ہیں
حرف ملتے ہیں، بُن کے خواب خواب لکھتا ہوں
خود سے لفظوں کو چن کر انتخاب کرتا ہوں
جب غزل میں لکھتا ہوں، لاجواب لکھتا ہوں
اس کی ذات پہ میرا جب بے حد توکل ہے
سب عطا وہ کرتا ہے، کیا حساب لکھتا ہوں
لفظوں کے نہیں ہیں انبار، سب تخیل ہے
حرف چن تخیل پر اک کتاب لکھتا ہوں
پھولوں کی قباؤں سے سب ورق بنا لیتا ہوں
رات کی سیاہی سے میں گلاب لکھتا ہوں
شب سحر کی جاگی ہوئی تمنّا ہے دلبر
نیم شبی کی ساعت کو سچا خواب لکھتا ہوں
پردہ جب ہٹا، اندھیرا سب ہوا چھٹ کر
نوری کرن بکھرے تو بے حجاب لکھتا ہوں
فطرت کے ورق پر روشنی کے عکس بنتے ہیں
میں ان کرنوں کو چن کے ماہتاب لکھتا ہوں
اندھیروں سے نکل کر جب اجالا پھیلتا ہے
میں اس لمحے کو اپنی کامیاب لکھتا ہوں
اس حسن کے چرچے ہیں ہر جگہ بہت لیکن
میں قلم اٹھا کے حسن پر جواب لکھتا ہوں

1
299
شکریہ

0