| جُستجو کرتے ہیں تو دل میں اُتر جاتے ہیں، |
| پیار کے باب میں سب قیدی گزر جاتے ہیں۔ |
| پیار کرتے ہیں تو دل جاں میں اُتر جاتے ہیں، |
| درد سہتے ہیں تو خوابوں میں نکھر جاتے ہیں۔ |
| پیار کرتے ہیں تو بس حد سے گزر جاتے ہیں، |
| جان دیتے ہیں تو دل میں ہی اُتر جاتے ہیں۔ |
| حُسن والے ہیں کئی رنگ دکھاتے ہر دم، |
| مسکراتے ہیں تو پیمانے بکھر جاتے ہیں۔ |
| چاند آئینے میں جب بھی رُو بہ رُو ہو جائے، |
| دیکھنے والے بھی حسرت سے ٹھہر جاتے ہیں۔ |
| فیصلے وقت پہ گر دل نے کیا ہوتے ہیں، |
| خار بھی شاخِ تمنا کے ثمر جاتے ہیں۔ |
| دل کسی ہاتھ سے جب چاند چھلک اُٹھتا ہے، |
| راستے ظلم کے بھی نور سے بھر جاتے ہیں۔ |
| ناز کرتے ہیں گلابوں پہ تو کانٹوں کے تلے، |
| شوخ لمحے بھی ہوا آتے بکھر جاتے ہیں۔ |
| زخم بڑھتے ہیں تو خواہش بھی مچل اُٹھتی ہے، |
| درد کی چوٹ سے سب خواب نکھر جاتے ہیں۔ |
| بات کہنی ہو تو آنکھوں کا سہارا کافی، |
| لفظ جب قید میں آئیں تو بکھر جاتے ہیں۔ |
| کیسے کہتے ہو کہ فرصت ہی نہیں مل پاتی، |
| پیار والے تو قدم راہ میں دھر جاتے ہیں۔ |
| پیار کا ذکر بھی اب سود کے پیمانے میں ہے، |
| ایسے مے خانے میں جذبات بکھر جاتے ہیں۔ |
| اب بیاں کیا ہو ستم اُن کے کہ حد سے بڑھ کر، |
| ذکر کرتے ہوئے الفاظ بھی مر جاتے ہیں۔ |
| رازِ اُلفت کو سمجھنے کے لیے دل چاہے، |
| راز کھلتے ہیں تو پردے بھی اُتر جاتے ہیں۔ |
| کام نیکی کے کریں دل میں اُتر جاتے ہیں، |
| پیار کرتے ہیں تو ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ |
| "خاکی" انداز ہے اس بندے کا کچھ اور الگ، |
| بات کرتے ہیں دلوں میں اُتر جاتے ہیں۔ |
معلومات