شبِ فرقت میں جم میں جام لے کر ڈالتا ہوں میں
سرور ایسا کہ ہر اک درد دل سے ٹالتا ہوں میں
مری توبہ بھی مے نوشی، مری وحشت بھی مے نوشی
میں ہر بار اس کو چھوڑوں، پھر پلٹ کر پالتا ہوں میں
بھلے دلسوزی کو ڈر اپنے ہی شر سے ہے مگر
سجا کے وصف اچھے اپنے آپ کو ڈھالتا ہوں میں
چنا میں نے الگ رستہ، بچا کر دامنِ الفت
فقط توقیر کے صدقے خطا ہر پل ٹالتا ہوں میں
چلے جب بادِ سحر، لائے ضیا، امید و خوشبویی
اسی کے نور سے ہر شب کی تاریکی ٹالتا ہوں میں
زمینِ دل پہ سورج کی ضیا اور چاند روشن ہے
نیا اک ڈھنگ سے اب زندگانی بھالتا ہوں میں
فدا پروانہ کرتا ہے یوں شوقِ روشنی پر جاں
کبھی سرگوشیاں خود سے، کبھی پر تالتا ہوں میں
سنو مت سنیے باتیں، لوگوں کی ہیں حقیقت کیا
تمہی رکھ دیکھو دل پہ ہاتھ، کیسے جھالتا ہوں میں

0
139