حالت میرے دل کی سمجھا تھا، ایسا انجان نہ تھا۔
ملنا مشکل تھا لیکن یوں بچھڑنا بھی آسان نہ تھا۔
چشمِ تر میں بس گیا تھا، درد کا وہ طوفاں نہ تھا
مل کر فی الفور چلا ہے، عام سا وہ انسان نہ تھا
کچھ پل میرے ساتھ بِتاتے تو کتنا اچھا ہوتا،
مل کر بیٹھتے دو دل، تیرا ہونا کچھ نقصان نہ تھا۔
اک کوشش کرتا تو مگر اس بات کی طرف دھیان نہ تھا۔
سوچ وسیع تھی، عالی ظرف—بصیرت کا فقدان نہ تھا۔
دن بھر کی سب رونقیں کھا گئیں شامیں تنہائی کی،
دل دلبر کا شہر ہوا ہے، کوئی کوچہ ویران نہ تھا۔
دیدنی نظارہ کروں، کوئی شام تو دلکش ہو اپنی۔
مہرہ بن کے ہوا رُخ اُڑا، جاری شاہی فرمان نہ تھا۔
ہر اک شام کو تیری دید ہو، دیکھ کے چہرہ عید ہوئی۔
روشن صبح کی ایک نوید ہو، میرا کچھ سامان نہ تھا۔
میرا درد کریدتے ہو کانٹوں کی نوک لگا کر کیوں؟
ایسا صلہ ملے گا مجھے، ہرگز کبھی امکان نہ تھا۔
گر دیدار شرف بخشے، مشکل اتنا پیمان نہ تھا۔
وقت یوں گزرا ہے میرا، پورا کوئی ارمان نہ تھا۔
قصہ سارا ادھورا تھا جس کا کوئی عنوان نہ تھا۔
واقفِ حال تھا میرے سب رازوں کا، خود نادان نہ تھا۔
ان بے مروّت لوگوں نے اب آسرا چھین لیا میرا۔
جب دامن پکڑا تھا، چھوٹنا اب ایسا دامان نہ تھا۔

0
13