ہوائے سرد نم زدہ نہ کر تو اس دیار کو۔
خیال ایسا دے نہ کر طلب تو حب اسار کو۔
محبتوں کے شہر میں ہیں دیپ حب چمک رہے۔
وفاؤں کی یہ سر زمین سمجھے تیرے پیار کو۔
پرندے نور کے بسیرے میں یوں آ کے چہکے ہیں۔
کھلے ہیں پھول ہے مقام اونچا لالہ زار کو۔
بہار میں یہ قمریاں یوں باغ باغ جھومی ہیں۔
مناسبت ملی ہے اس دیار میں بہار کو۔
سویرے میں یہ نوری کرنوں کے پڑے ہیں ڈیرے جو۔
تو چھوڑ سارا کچھ ابھی یہ ترک کر فرار کو۔
یہ روشنی کی تمکنت پھلوں کو یوں پکائے ہے۔
ہوا موافقت چلی دماغ خوش گزار کو۔
وہ بولی بول جس سے پھول برسیں اب سدا یہاں۔
تو ختم کر دے سارا اب بے کار اس ابھار کو۔
یہ بات آگے بڑھ کے وعدہ اپنا اب وفا ہو گا۔
زبان چپ سہی مگر سمجھتی ہے ظہار کو۔
تو بات کر نہ ہم زبان کھول دیں جو چپ ذرا۔
نیام میں تو رکھ دو رخ پڑی بڑی شرار کو۔
یہ بازی عشق کی لگا دو ڈر یہ کاہے کا لگے۔
رگوں میں خون دوڑ کر بجھائے گا یوں نار کو۔

0
8