ہوائے سرد، اب نہ کر اداس اس دیار کو
دے خواب ایسا، جاگ دے سکوں سے دل کے پیار کو
وفاؤں کے چراغ ہیں محبتوں کے شہر میں
یہ سرزمین مانتی ہے دل سے اعتبار کو
پرندے روشنی میں آ کے یوں خوشی سے چہک گئے
کھلا ہے باغ، مل گیا ہے رنگ لالہ زار کو
بہار آئی تو قمرِیاں نشاط سے جھومنے لگیں
نسیمِ نغمہ لا رہی ہے کیفِ خوشگوار کو
سحر میں نور کی کرن نے ڈال دی ہے اپنی چھاؤں
چھوڑ سب، گلے لگا کہ جی اٹھا غمِ غبار کو
یہ دھوپ کی تمازتیں ثمر کو یوں پکاتی ہیں
چلی ہوا موافق اب، سکوں ملا خمار کو
وہ بول ایسا بول دے کہ پھول برسے جا بجا
محبتوں سے بھر گیا ہے دل، مٹا اُدھار کو
یہ بات وعدہ بن گئی، یقیں ہوا وفا پہ اب
اگرچہ لب ہیں بند پر سمجھ لیا اقرار کو
تو کہہ دے دل کی بات اب، یہ خامشی نہ روکے عشق
چھپا نہ رکھ ہنر کبھی، بجھا نہ شعلہ وار کو
یہ کھیل عشق کا لگا، تو ڈر یہ کیوں ہوا تجھے؟
رگوں میں خون ہے رواں، بجھا دے دل کی نار کو
خاکی یہ دل صدا کرے، طلب ہے وصل کی سدا
وفا کے رنگ میں سجا دیا ہے میں نے یار کو

0
12