یوں عجز دسترس پہ ہے نیاز میرے یار کی۔ |
سند کہا ہوں بخت خوش نواز میرے یار کی۔ |
سحر نسیم کیا نسیم بحر کیا یہ قصہ کیا۔ |
کہ اب کی بار مختلف مجاز میرے یار کی۔ |
یہ برکھا رت ہو گرم سرد رت بہار پھر خزاں۔ |
سخن وروں سے ہے بھلی جواز میرے یار کی۔ |
تو میرے فن کو بانٹ ایک عمر جاوداں کبھی۔ |
خدا کرے یوں عمر ہو دراز میرے یار کی۔ |
جو دیکھو اس کہانی کو تو رنگ ہی الگ ہوا۔ |
سنے کوئی تو پھر کرے طراز میرے یار کی۔ |
خدا نے بانٹا ہے حسن یہ کیسی طرز پر بنا۔ |
تو کیوں نہ نکھرے کون دیکھے ناز میرے یار کی۔ |
مزاج گرم ہے کبھی یہ ٹھنڈی دل فریبی ہے۔ |
الگ ہی طبع منفرد مجاز میرے یار کی۔ |
معلومات