| یوں عجز دسترس پہ ہے نیاز میرے یار کی |
| سند کہاں ہوں بخت خوش نواز میرے یار کی |
| نسیمِ صبح ہو کہ موجِ بحر سب ہیں ایک سا |
| مگر ہے اور ہی خمار و ناز میرے یار کی |
| یہ برکھا رت ہو یا خزاں، بہار ہو کہ تیز گرم |
| سخن وروں سے ہے بھلی جواز میرے یار کی |
| خدا کرے ہو عمر اُس کو مثلِ جاوداں عطا |
| رہے سدا بلند بخت باز میرے یار کی |
| جو دیکھو اُس کہانی کو تو رنگ ہی الگ ہوا |
| سنے کوئی تو پھر کرے طراز میرے یار کی |
| خدا نے بانٹا ہے حسن عجب سی طرز پر یقیں |
| عجب ہے نکہت و ادا و ناز میرے یار کی |
| مزاج گرم ہے کبھی، کبھی ہے ٹھنڈی دلکشی |
| نرالی طبع اور جدا مجاز میرے یار کی |
| ہو دسترس پہ عجز تو یہی امتیاز ہے بہر |
| خدا کرے بلند راز و ساز میرے یار کی |
| تو میرے فن کو بانٹ دے سدا غنائی جذبۂ دل |
| خدا کرے دراز عمر و ساز میرے یار کی |
| خاکی! کرے جو ذکر بھی، کرے گا ناز سے بیاں |
| کہ ہے مثال بے مثال راز میرے یار کی |
معلومات