Circle Image

Hassan Raziq Marhoom

@Hassanmarhoom12

سخن کا اک سلسلہ بنے گا
حرم بھی اب میکدہ بنے گا
علاج اس کا نہیں ہوا گر
یہ عشق اک دن وبا بنے گا
مجھے پتہ ہے کہ دھیرے دھیرے
وہ بت کسی دن خدا بنے گا

91
وہ جیسے باغ سے بعدِ صبا گزرتی ہے
مری گلی سے مری دلربا گزرتی ہے
زہے نصیب یہاں بار بار مت آنا
کبھی تو سوچ مرے دل پہ کیا گزرتی ہے
گزرتی ہے وہ گلی سے ستم نہیں ہے یہ
ستم تو یہ ہے کہ میرے سوا گزرتی ہے

0
68
ظلم یوں مجھ پہ باخدا نہ کرو
اس کی آنکھوں کا تذکرہ نہ کرو
اب مرے زہن سے نکل جاؤ
اب مرے دل میں تم رہا نہ کرو
جس میں شامل ہو زندگی میری
ایسی کوئی بھی تم دعا نہ کرو

46
تنہائی میں اب کرنا سفر سیکھ لیا ہے
اور زیر کو اب کرنا زبر سیکھ لیا ہے
واعظ اے مرے یار سنو عشق میں ہم نے
راتوں کو بھی اب کرنا سحر سیکھ لیا ہے
اب جان سے جانے کا بھلا خوف ہو کیسا
اب رکھنا ہتھیلی پہ جگر سیکھ لیا ہے

58
تیرے آنے سے سما یہ کیا سے کیا ہو جائے گا
جسم میرا روح سے کٹ کر جُدا ہو جائے گا
مت بہاو اب ندامت کے یہ آنسُو جانِ من
ورنہ یہ عاشق دوبارہ سر پِھرا ہو جائے گا
مانتا ہوں جو بھی ہونا تھا چلو وہ ہو گیا
اب دوبارہ تم جو روئے تو بُرا ہو جائے گا

78
پیار میں اب کمی نہیں آتی
آنکھ میں اب نمی نہیں آتی
میرے کوچے میں اس محلے میں
یار اب وہ پری نہیں آتی
مسکرانے کو مت کہو پیارے
راس مجھ کو ہنسی نہیں آتی

49
درد سے ٹوٹ کر بکھرتی شام
میرے اندر اگر اترتی شام
دیکھ لیتی جگر کے سو ٹکڑے
اور پھر ہائے ہائے کرتی شام
گر کہانی وہ دل کی سن لیتی
بین کرتی اور آہ بھرتی شام

85
زندگی کائنات اشکوں سے
ہے غزل کو ثبات اشکوں سے
جب کبھی چار سو خموشی ہو
میں تو کرتا ہوں بات اشکوں سے
یہ بھی اک دائمی حقیقت ہے
چشم کی ہے حیات اشکوں سے

50
خوشی تو صرف زبانی ہے ہجر والوں کی
یہی تو اصل معانی ہے ہجر والوں کی
نہ روکو ان کو یہ پیتے ہیں بے خبر ہو کر
شراب رات کی رانی ہے ہجر والوں کی
سِیہ لباس پہننے دے مجھ کو اے واعظ
کہ یہ لباس نشانی ہے ہجر والوں کی

0
52
عشق کے اشعار کی تمہید کے نوحے لکھے
ہم نے لکھے بھی تو اس کی دید کے نوحے لکھے
آنکھ سے اشکوں کے ہمرہ خون برساتے ہوئے
ہم نے اک بے مہر کی تردید کے نوحے لکھے
خستہ حالت دیکھ کر دینِ خدا کی دوستو
مجھ سے اک ابلیس نے توحید کے نوحے لکھے

39
میں نے اپنے غم کا افسانہ لکھا ہے عید پر
درد سے بھرپور اک نغمہ لکھا ہے عید پر
مسکراہٹ کو مری شاید نظر سی لگ گئی
یا مری قسمت میں ہی رونا لکھا ہے عید پر
اب نہ آئے گی تمہاری یاد مجھ کو پھر کبھی
کانپتے ہاتھوں سے یہ جملہ لکھا ہے عید پر

154
جب بھی دیکھا روبرو دیکھا گیا
ان کا چہرہ ہو بہو دیکھا گیا
یہ نظارہ چار سُو دیکھا گیا
تجھ میں میں اور مجھ میں تُو دیکھا گیا
میری تنہائی میں بھی اکثر مجھے
تجھ سے محوِ گفتگو دیکھا گیا

107