تیرے آنے سے سما یہ کیا سے کیا ہو جائے گا
جسم میرا روح سے کٹ کر جُدا ہو جائے گا
مت بہاو اب ندامت کے یہ آنسُو جانِ من
ورنہ یہ عاشق دوبارہ سر پِھرا ہو جائے گا
مانتا ہوں جو بھی ہونا تھا چلو وہ ہو گیا
اب دوبارہ تم جو روئے تو بُرا ہو جائے گا
جل گیا ہے ہجر کی انتھک مسلسل دھوپ سے
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا
کمسنی کا طعنہ دے کر رد کیا مرحوم کو
کیا پتہ تھا یہ نِکما یوں بڑا ہو جائے گا
حسن رازق مرحوم

78