وہ جیسے باغ سے بعدِ صبا گزرتی ہے
مری گلی سے مری دلربا گزرتی ہے
زہے نصیب یہاں بار بار مت آنا
کبھی تو سوچ مرے دل پہ کیا گزرتی ہے
گزرتی ہے وہ گلی سے ستم نہیں ہے یہ
ستم تو یہ ہے کہ میرے سوا گزرتی ہے
زمین کانپنے لگتی ہے شور ہوتا ہے
وہ جیسے بن کے کوئی حادثہ گزرتی ہے
بچھا دو راہ میں پھولوں کی چادریں مرحوم
کہ اس گلی سے تری پارسا گزرتی ہے
حسن رازق مرحوم

0
68