سخن کا اک سلسلہ بنے گا
حرم بھی اب میکدہ بنے گا
علاج اس کا نہیں ہوا گر
یہ عشق اک دن وبا بنے گا
مجھے پتہ ہے کہ دھیرے دھیرے
وہ بت کسی دن خدا بنے گا
جو پڑھتا ہے جون ایلیا کو
وہ خود میں اک کربلا بنے گا
رگوں میں میرے جو دوڑتا ہے
لہو وہ رنگِ حنا بنے گا
حقیقت اتنی ہے زندگی کی
جو اب کے ہے ہے وہ تھا بنے گا
میں گر خدا سے لپٹ کے رو دوں
خدا بھی درد آشنا بنے گا
ہمارے قصے ملک سنیں تو
فلک پہ فرشِ عزا بنے گا
جنابِ نُصرت کو سننے والی
اُداس نسلوں کا کیا بنے گا
لہو بدن کا جلا دے مرحوم
تو عشق کا قافیہ بنے گا

91