| حسین راتیں اجاڑ لمحوں کی تابناکی میں جل رہی ہیں
|
| کسی کی آنکھیں کہ خواب گاہوں کی اِس بے خوابی میں جل رہی ہیں
|
| تمہاری الفت میں وہ بیچارا اسیرِ زنداں رہے گا کب تک
|
| کہ اُس پیارے کی آرزوئیں تری سفاکی میں جل رہی ہیں
|
| کیا ہی منظر تھا وہ کہ جس میں تُو نے دیکھا یوں مجھے پلٹ کر
|
| کہ اب بھی آنکھیں ترے تخیل کی بے حجابی میں جل رہی ہیں
|
|
|