| تیرے اُس عہد کو، اس طرح نبھا رکھا ہے |
| ہم نے سینے پہ جو، اک بوجھ اٹھا رکھا ہے |
| تُو کبھی بھول کے آ نکلے، جو میری جانب |
| تجھ کو مشکل نا پڑے، گیٹ ہٹا رکھا ہے |
| جب سے ناراض ہو کر، مجھ سے الگ بیٹھا ہے |
| خُود کی نظروں سے، میں نے خُود کو گرا رکھا ہے |
| لوگ پُوچھیں تو ملاوٹ، نہ ملے ڈھونڈے سے |
| میں ترے عشق کو یُوں، سب سے جدا رکھا ہے |
| جب مرے خواب ہی سارے، ہو گے جل کر مٹی |
| تب سے پھر طاق میں، آنکھوں کو سجا رکھا ہے |
| تجھ سے باتیں نہیں کرتیں، یہ سُنا ہے جب سے |
| میں نے منڈھیر سے، چڑیوں کو اڑا رکھا ہے |
| م-اختر |
معلومات