| پھر سے جو حوصلہ جما رہا ہوں |
| حال کا زائچہ بنا رہا ہوں |
| روح ماضی میں کھو چکی ہے یار |
| جسم کو میں جی کر سکھا رہا ہوں |
| تم کو دعوت ہے دیکھنے آنا |
| میں جو جنگل میں گھر بنا رہا ہوں |
| اب کہیں دل نہیں ہے لگ رہا تو |
| آگ سے رابطے بڑھا رہا ہوں |
| مجھ کو وحشت سی ہو گئی ہے کہ میں |
| سایہ دیوار بھی گرا رہا ہوں |
| ہجربچپن میں کٹ گیا تھا میں اب |
| نفسیاتی علم پڑھا رہا ہوں |
| م-اختر |
معلومات