| حسین راتیں اجاڑ لمحوں کی تابناکی میں جل رہی ہیں |
| کسی کی آنکھیں کہ خواب گاہوں کی اِس بے خوابی میں جل رہی ہیں |
| تمہاری الفت میں وہ بیچارا اسیرِ زنداں رہے گا کب تک |
| کہ اُس پیارے کی آرزوئیں تری سفاکی میں جل رہی ہیں |
| کیا ہی منظر تھا وہ کہ جس میں تُو نے دیکھا یوں مجھے پلٹ کر |
| کہ اب بھی آنکھیں ترے تخیل کی بے حجابی میں جل رہی ہیں |
| مجھے تو غیرت کا یہ بھی کوئی پرانا مسئلہ سا لگ رہا ہے |
| جو اتنی نسلیں کسی محبت کی کامیابی میں جل رہی ہیں |
| افق سے نکلے گا ایسا سورج مٹا جو دے گا سبھی اندھیرے |
| ہماری صبحیں ازل سے لے کر کسی تاریکی میں جل رہی ہیں |
| نگاہِ مجنوں کہ عشقِ مرزا وہ ہیر رانجھے کی اک کہانی |
| سنو گے کب تک کہ آ کے دیکھو یوں جسدِ خاکی میں جل رہی ہیں |
| تمہاری ظلمت رہے گی جب تک معین لکھتا رہے گا غزلیں |
| کہ اُس کی شامیں تری لگائی ضربِ کاری میں جل رہی ہیں |
| م-اختر |
معلومات