| رستہ بھٹک رہا ہوں منزل بھی پا رہا ہوں |
| کچھ تو خبر ہو مجھ کو کس لے میں جا رہا ہوں |
| مجھ کو بلاؤ ہر در و بام جانتا ہوں |
| اس راستے میں میں پیکانِ وفا رہا ہوں |
| کچھ یار کی عداوت کچھ بغضِ آستیں تھا |
| ورنہ تو اس زمیں پر مدت کھڑا رہا ہوں |
| صدیوں تلک ہے جھیلی کچھ ایسی پیاس میں نے |
| اب پانی جو ملا ہے دریا بہا رہا ہوں |
| بس اس کو چاہیے تھا زخمِ وفا وگرنہ |
| میں تو جہان بن کر اس پر چھٹا رہا ہوں |
| تم آرزو تھے اول تم آرزو ہو آخر |
| اور آرزو میں بیٹھا تم کو سجا رہا ہوں |
| ملنے کو آ رہی ہیں کچھ یادیں جو مرے گھر |
| میں بیٹھنے کی خاطر کانٹے ہٹا رہا ہوں |
| م-اختر |
معلومات