مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1200
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
☆ ☆ ☆
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1715
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1348
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1084
تمہی کو آج مرے روبرو بھی ہونا تھا
اور ایسے رنگ میں جس کا کبھی گماں بھی نہ ہو
نگاہ تند غضب ناک دل کلام درشت
چمن میں جیسے کسی باغباں کی آنکھوں نے
روش کے ساتھ ہی ننھے سے ایک پودے کو
شگفتہ ہو کے سنورتے نکھرتے دیکھا ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1579
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
693
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے
بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِ خوں فشاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں رو شناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
1108
شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ
ہوا ہے موجبِ آرامِ جان و تن تکیہ
خراج بادشہِ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟
کہ بن گیا ہے خمِ جعدِ پُر شکن تکیہ
بنا ہے تختۂ گل ہائے یاسمیں بستر
ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
288
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو
ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو
ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
661
نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
"کمالِ گرمئ سعئ تلاشِ دید" نہ پوچھ
بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!
کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
357
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
255
بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
وفورِ عشق نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار
نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
305
حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز
نہ ہو بہ ہرزہ، بیاباں نوردِ وہمِ وجود
ہنوز تیرے تصوّر میں ہے نشیب و فراز
وصالِ جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں!
کہ دیجئے آئینۂ انتظار کو پرواز

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
875
رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع
زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگِ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع
کرے ہے صِرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام
بہ طرزِ اہلِ فنا ہے فسانہ خوانیِ شمع

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
389
بہ نالۂ دلِ دل بستگی فراہم کر
متاعِ خانۂ زنجیر جز صدا، معلوم

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
250
گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


3491
شرف کے شہر میں ہر بام و در حسینؑ کا ہے
زمانے بھر کے گھرانوں میں گھر حسینؑ کا ہے
فراتِ وقتِ رواں! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے
زمین کھا گئی کیا کیا بلند و بالا درخت
ہرا بھرا ہے جو اب بھی شجر حسینؑ کا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


5
3703
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1724
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ مخلصی کی سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1349
تمھارے لہجے میں جو گرمی و حلاوت ہے
اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ
غنیمِ نور کا حملہ کہو اندھیروں پر
دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی
رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سو
خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1480
دیارِ غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر
کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں
کسی اِک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر
جہاں ہجومِ گریزاں میں تم نظر آ جاؤ
اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے!

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
282
وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا
خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا
پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر !
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2
2141
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا ہے بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
2752
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا
شِکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
دمشقِ مصلحت و کوفۂ نفاق کے بیچ
فغانِ قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1620
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
2857
خُجستہ انجمنِ طُوئے میرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ
ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبؔ
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی "محظوظ"

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
231
بنا ہے کون، الٰہی، یہ کارواں سالار؟
کہ اہلِ قافلہ مبہوت ہیں، دِرا خاموش
یہ کس کے رعب نے گُدّی سے کھینچ لی ہے زباں؟
کہ باوقار ہیں لب بستہ، بے نوا خاموش
لدا ہوا ہے سروں پر مہیب سناٹا
ہوا کے پاؤں میں زنجیر ہے، فضا خاموش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
2163
جو مثلِ دوست، عدو کو بھی سرفراز کرے​
اُس آدمی کی خدا زندگی دراز کرے​
وہ کج نہاد ہے آدم کا ناخلف فرزند​
میانِ کافر و مومن جو امتیاز کرے​

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
624
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیٔ عدو کیا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
6102
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں
کوئی کہے کہ 'شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے'
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
570
زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
675
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
826
وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
دکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
865
نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہ کہ ، بظاہر نگاہ سے کم ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
453
کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ ، سراسر نگاہِ گل چیں ہے
کبھی تو اِس سرِ شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے
بجا ہے ، گر نہ سنے ، نالہ ہائے بلبلِ زار
کہ گوشِ گل ، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
568
دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے ، کیا کہیے!
رہے ہے یوں گہ و بے گہ ، کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے!

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1177
سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2516
نہ پُوچھ اِس کی حقیقت، حُضُورِ والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی رَوغَنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں، نکلتے نہ خُلد سے باہر
جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسَنی روٹی

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
484
نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
"کمالِ گرمئ سعئ تلاشِ دید" نہ پوچھ
بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!
کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2010
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا، شریکِ غالبؔ ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
352
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں فریاد

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
333
خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن
بنائے خندۂ عشرت ہے بر بِنائے چمن
بہ ہرزہ سنجیِ گلچیں نہ کھا فریبِ نظر
ترے خیال کی وسعت میں ہے فضائے چمن
یہ نغمۂ سنجیِ بلبل متاعِ زحمت ہے
کہ گوشِ گل کو نہ راس آئے گی صدائے چمن

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
402
کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
انہیں ہنسا کے رلانا بھی کوئی بات نہیں
کہاں سے لا کے دکھائے گی عمرِ کم مایہ
سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں
زبان حمد کی خوگر ہوئی تو کیا حاصل
کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
547
نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ
مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ
نہ ہو بہ ہرزہ روادارِ سعیِ بے ہودہ
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
470
وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئی ہے
جوابِ جنّتِ بزمِ نشاطِ جاناں ہے
مری نگاہ جو خوں بار ہوتی آئی ہے
نموئے جوشِ جنوں وحشیو! مبارک باد
بہار ہدیۂ انظار ہوتی آئی ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
416
زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
کشاد و بستِ مژہ ، سیلیٔ ندامت ہے
نہ جانوں ، کیونکہ مٹے داغِ طعنِ بد عہدی
تجھے کہ آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے
بہ پیچ و تابِ ہوس ، سلکِ عافیت مت توڑ
نگاہِ عجز سرِ رشتۂ سلامت ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
398
کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے "
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں "
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو "بجا" کہیے
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
1079
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غلامِ ساقیٔ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے
کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زلفِ خم بہ خم کیا ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
828
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تری سُرمہ سا نکلتی ہے
فشارِ تنگئ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں‌ جا نکلتی ہے
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آبِ تیغِ نگاہ
کہ زخمِ روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
333
صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
کہ روئے غنچہ سوئے آشیاں پھر آ جائے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
310