بنا ہے کون، الٰہی، یہ کارواں سالار؟
کہ اہلِ قافلہ مبہوت ہیں، دِرا خاموش
یہ کس کے رعب نے گُدّی سے کھینچ لی ہے زباں؟
کہ باوقار ہیں لب بستہ، بے نوا خاموش
لدا ہوا ہے سروں پر مہیب سناٹا
ہوا کے پاؤں میں زنجیر ہے، فضا خاموش
کڑک رہا ہے سرِ بیکساں پہ یہ فرماں
کہ ابتدا سے رہو تا بہ انتہا خاموش
یہ سوچ کر کہ بغاوت اُسے نہ ٹھہرا دیں
لبِ جہاں پہ ہے مرنے کی بھی دعا خاموش
نہ شر میں ہمتِ غوغا، نہ خیر ہی میں خروش
تمام شہر کے اوباش و اولیاء خاموش
سرِ قلم پہ ربابِ صریر بے آہنگ
لبِ حیات پہ انفاسِ نغمہ زا خاموش
حریمِ وجد میں پیرانِ ہاؤ ہو ساکت
بساطِ بادہ پہ رندانِ خوش نوا خاموش
ربابِ دائرۂ عاشقاں صدا محروم
نگاہِ نرگسِ خوبانِ خوش ادا خاموش
طلوع، بستہ زبان و غروب، مُہر بہ لب
شبِ مغنی و صبحِ غزل سرا خاموش
تمام مطبع و محراب و منبر و اخبار
معِ معادلت و منصبِ قضا، خاموش
حصیرِ فرش پہ ہیں، سُرمہ در گلو، بندے
سریرِ عرشِ معلّیٰ پہ ہے خدا خاموش
رخِ کلیم پہ زردی، بہ ہیبتِ فرعون
درِ یزید پر اقطابِ کربلا خاموش
شکوہِ تاج و سرِ شاہ کی، الٰہی خیر
کہ ایک عمر سے ہیں خفتہ پا گدا خاموش
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن

1
1863

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں
غزل

لٹا چکا ہے تُو اپنا وقار جانے دے
تُو بِک چکا ہے مرے جاں نثار جانے دے

مرے وطن میں اسیری کا دور ختم ہوا
بکھر چکا ہے ترا اقتدار جانے دے

جکڑ لیا ہے رقیبوں نے خاص قرضوں میں
تو بخش دیں گے وہ سب پُر وقار جانے دے

تُو پھر رقیب کی باتوں پہ مشتعل ہے دل
لگیں گے شہر میں پھر اشتہار جانے دے

نفیس لوگوں میں تیرا شمار ہو گا کل
سمیٹ لے تُو ابھی انتشار جانے دے

عزیز غصہ بجا ہے تُو حق پہ ہے بیشک
دِکھا اگرچہ ذرا انکسار جانے دے

کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے ہیں چپ دشمن
نہ چیخ چیخ کے ان کو پکار جانے دے

شہاب سب کو مفادات ہیں عزیز اپنے
سکھا نہ مجھ کو وفا کے شعار جانے دے

شہاب احمد

۲۲ جولائی ۲۰۲۲

0