| سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو |
| تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو |
| نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے |
| کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو |
| خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟ |
| کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو |
| خدا کا بندہ، خداوند گار بندوں کا |
| اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟ |
| فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی |
| کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو |
| کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی |
| اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو |
| مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی |
| ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو |
| وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل |
| شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو |
| عدو کی سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات |
| کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو |
| بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند |
| بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اُس کو |
| نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک |
| کہ لوگ جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو |
| ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے |
| اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو |
| ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسنِ صبر کی داد |
| مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو |
| زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں |
| پس از حسین علی پیشوا کہیں اُس کو |
| وہ ریگِ لقمۂ وادی میں خامہ فرسا ہے |
| کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو |
| امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد |
| پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو |
| یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں |
| علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں اُس کو |
| یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ |
| بُرا نہ مانیے گر ہم بُرا کہیں اُس کو |
| علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین |
| کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟ |
| نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے |
| رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟ |
| بھرا ہے غالبؔ دِل خستہ کے کلام میں درد |
| غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو |
بحر
|
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
|
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات