وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا
خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا
پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر !
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا
کسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میں
مجھے وہ توڑ ہی لیتا، شریر ایسا تھا
ہنسی کے رنگ بہت مہربان تھے لیکن
اُداسیوں سے ہی نبھتی ، خمیر ایسا تھا
ترا کمال، کہ پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں
غزالِ شوق کہاں کا اسیر ایسا تھا
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن

2
1962

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
ترے بغیر مری زندگی ادھوری تھی
مجھے وفا سے محبت سے روشناس کیا
مری حیات کو چاہت کی چاشنی بخشی
مرا نصیب درخشاں ترے ملن سے ہوا
مری نگاہ میں اب تک ہے خواب سا منظر
کہ خواب گاہ میں اتری مرے پری صورت
بکھر رہا تھا تبسم حسین چہرے پر
چھلک رہی تھی گلابی حسین آنکھوں سے
نفیس ہونٹوں کی لرزش گلاب سے عارض
چمک رہے تھے محبت میں گرمجوشی سے
گداز جسم کو بانہوں میں بھر لیا میں نے
ترے لبوں کی حلاوت سے چاشنی پا کر
مرے وجود نے راحت وصال کی پائی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
حسین خواب کی صورت ہے داستاں اپنی

سلام،
اس مصرع میں ایک ٹائپ کی غلطی ہے: "اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا" کی بجائے "
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھی" ہونا چاہیے۔۔
شکریہ