| دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے |
| ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے |
| یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے |
| قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے ، کیا کہیے! |
| رہے ہے یوں گہ و بے گہ ، کہ کوئے دوست کو اب |
| اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے! |
| زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب |
| کہ بن کہے ہی انھیں سب خبر ہے، کیا کہیے |
| سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وہ پرسشِ حال |
| کہ یہ کہے کہ ، سرِ رہ گزر ہے ، کیا کہیے؟ |
| تمھیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال |
| ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ، مگر ہے کیا؟ کہیے! |
| انھیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے ، کیوں لڑیے |
| ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے؟ |
| حسد ، سزائے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے |
| ستم ، بہائے متاعِ ہنر ہے ، کیا کہیے! |
| کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں ، لیکن |
| سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے |
بحر
|
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
|
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات