مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زندگی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
930
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
☆ ☆ ☆
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1166
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1200
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں
خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں
مگر یہ حوصلۂ مرد ہیچ کارہ نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
949
تمہی کو آج مرے روبرو بھی ہونا تھا
اور ایسے رنگ میں جس کا کبھی گماں بھی نہ ہو
نگاہ تند غضب ناک دل کلام درشت
چمن میں جیسے کسی باغباں کی آنکھوں نے
روش کے ساتھ ہی ننھے سے ایک پودے کو
شگفتہ ہو کے سنورتے نکھرتے دیکھا ہو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1452
نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ
مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ
نہ ہو بہ ہرزہ روادارِ سعیِ بے ہودہ
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
354
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
2378
کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا
جہانِ رزق میں توقیرِ اہلِ حاجت کیا
شِکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
دمشقِ مصلحت و کوفۂ نفاق کے بیچ
فغانِ قافلۂ بے نوا کی قیمت کیا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1426
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا ہے بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
2525
وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا
خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا
پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر !
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2
1970
نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جاۓ گی جواب کے ساتھ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
274
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
538
نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے
بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِ خوں فشاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں رو شناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
709
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تری سُرمہ سا نکلتی ہے
فشارِ تنگئ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں‌ جا نکلتی ہے
نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آبِ تیغِ نگاہ
کہ زخمِ روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
260
کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے "
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں "
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو "بجا" کہیے
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
843
نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
"کمالِ گرمئ سعئ تلاشِ دید" نہ پوچھ
بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!
کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1859
کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
انہیں ہنسا کے رلانا بھی کوئی بات نہیں
کہاں سے لا کے دکھائے گی عمرِ کم مایہ
سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں
زبان حمد کی خوگر ہوئی تو کیا حاصل
کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
401
خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن
بنائے خندۂ عشرت ہے بر بِنائے چمن
بہ ہرزہ سنجیِ گلچیں نہ کھا فریبِ نظر
ترے خیال کی وسعت میں ہے فضائے چمن
یہ نغمۂ سنجیِ بلبل متاعِ زحمت ہے
کہ گوشِ گل کو نہ راس آئے گی صدائے چمن

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
327
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں فریاد

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
278
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا، شریکِ غالبؔ ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
307
سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1815
دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے ، کیا کہیے!
رہے ہے یوں گہ و بے گہ ، کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے!

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
877
کرے ہے بادہ ، ترے لب سے ، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ ، سراسر نگاہِ گل چیں ہے
کبھی تو اِس سرِ شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے
بجا ہے ، گر نہ سنے ، نالہ ہائے بلبلِ زار
کہ گوشِ گل ، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
493
وہ آ کے ، خواب میں ، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
دکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
716
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
620
زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
606
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں
کوئی کہے کہ 'شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے'
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
421
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


0
862
جو مثلِ دوست، عدو کو بھی سرفراز کرے​
اُس آدمی کی خدا زندگی دراز کرے​
وہ کج نہاد ہے آدم کا ناخلف فرزند​
میانِ کافر و مومن جو امتیاز کرے​

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


0
466
بنا ہے کون، الٰہی، یہ کارواں سالار؟
کہ اہلِ قافلہ مبہوت ہیں، دِرا خاموش
یہ کس کے رعب نے گُدّی سے کھینچ لی ہے زباں؟
کہ باوقار ہیں لب بستہ، بے نوا خاموش
لدا ہوا ہے سروں پر مہیب سناٹا
ہوا کے پاؤں میں زنجیر ہے، فضا خاموش

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1
1885