Circle Image

ابو ‌‌‌‎ظفؔر عباسی

@abuzafarabbasi

ہاتھوں کو دیکھو، سب ہیں مزدور یہاں پر
پکڑے ہوئے لوگوں نے بس اوزار الگ ہیں
تیشہ ہو ، گارا ہو ، آری ہو ، یا قلم ہو
دنیا نے ٹھہرا دیے بس معیار الگ ہیں

0
13
تیری عنایتوں کا گر میں حساب لکھوں
یا رب کیا کیا اور کتنی کتاب لکھوں
تیری عطا مِری ان باتوں پے بھی کثر ہے
میں خود کبھی نہ جن پر کوئی ثواب لکھوں
ہر ذرّہ اک نئی دنیا کے دریچے کھولے
پھر اک کے بعد اک میں کتنے ہی باب لکھوں

0
32
ہُوں مُنتظر مَیں کب سے بیٹھا ہُوا سَوالی
اُلفت لگن میں، مَیں نے ڈر ڈر کے عرضی ڈالی
بس تھام پاؤں مَیں روضے کی سنہری جالی
جاری زباں پے ہوں سارے ہی دُرود عالی
بس کاش ایک دفعہ جا کے سلام کہہ دوں
دل کا مَیں اپنا سارے کا سارا حال کہہ دوں

0
44
آج پھیلے ہُوئے ہیں ہر طرف اہلِ عرب
چھوڑ بیٹھے ہیں مگر اپنی یہ فِکر و ادب
حال ایسا ہی بنا بیٹھے ہیں اہلِ عجم
بُھول بیٹھے ہیں کہیں اپنا یہ زرّیں نَسب
جو امامت تھے کبھی کرتے اب ہیں مقتدی
پستی پے کرتا ہے ان کی جہاں سارا عجب

0
29
ملگجے اندھیرے میں آنکھ میری بھر آئی
پھر پتا نہ چلا، جانے کہ کب سحر آئی
دل کی وادی تو تیری یادوں کا مسکن تھی!
لگتا آج، کوئی جو رہ گئی تھی، گھر آئی

0
30
تجھ کو زماں نے پایا انساں نا شُکر و بےصبر ہے
مَن میں بسا لی تُو نے دنیا، بات بارِ فکر ہے
تُو کون ہے کیونکر ہے آیا، یہ کبھی سوچا تُو نے
غفلت میں ڈوبے تیرے جیون کا، بَتا کیا عُذر ہے
کر اپنے وعدے یاد سارے، آیا جو کر خُدا سے
گر پا گیا اپنی حقیقت، دنیا ساری صِفر ہے

0
60
سمجھ، شعور کی منزل پاتی ہی نہیں
دلیل سامنے ہو سمجھ آتی ہی نہیں
سیاہی من سے فسوس یہ جاتی ہی نہیں
نظر دکھائے مگر دکھا پاتی ہی نہیں
جبیں ٹکاتے ہیں روز ہی اس خاک پے ہم
دعا نجانے مگر اثر لاتی ہی نہیں

0
45
گئی رُتوں کے حسین لمحے کہاں ملیں گے
کبھی جو دِل میں ہمارے بستے کہاں ملیں گے
رُباب سارے سِتار سارے ہیں توڑ ڈالے
تَو رُوح میں رَچنے والے نغمے کہاں ملیں گے
دیے ہمیں زخم اپنوں ہی نے ہمیشہ چھپ کے
نشاں ہمارے بدن پے گہرے کہاں ملیں گے

0
83
بےرُخی سے میں اُس کی، لازمی بِکھر جاتا
جو نہ میں اُسے پاتا، ہر طرف جِدھر جاتا
دیکھ اُس نے دِل میرا، اپنے پاس لے رکھا
پھر نہ میں اُدھر جاتا، تو بتا کِدھر جاتا

0
70
ٹھیک ہے مانا جِس کا جسم اُس کی مرضی
سب خُدا کا، بس بات ختم، اُس کی مرضی
قول و عمل میں ازاد ہیں ہم اِس دنیا میں
ڈال دیا کیوں اُس نے وہم، اُس کی مرضی

0
1
39
لمبے سفر کی چاہ ہے پر رستہ مختصر
مجبور زیست سے سبھی کا رشتہ مختصر
آنکھیں کھلیں گی بند ہو کر ہی حقیقتاً
برسوں کی زندگی لگے گی لمحہ مختصر
ہر غم کی عمر ہوتی ہے تھوڑی سی دوستو
شب کو سحر یہ دے رہی ہے مژدہ مختصر

0
46
غمِ دَوراں غمِ ہستی کا باعث ہی بنے
تلخیوں کا مُوجِب اکثر مُباحث ہی بنے
میں کتابیں تو پڑھا سیکھنے کو یوں بہت
وجہ میرے سیکھنے کی حَوادث ہی بنے

0
61
مُدّتوں سے کام کل پے ٹال رکھے ہیں
ہم نے بھی کیا کیا وبال پال رکھے ہیں
اور زیاں کا یہ غم مٹانے کو ہم نے
بس ہے کہ الزام اَوروں پے ڈال رکھے ہیں

75
لمحے کئی ایسے غضب ہوتے ہیں
برسوں جدائی کا سبب ہوتے ہیں
اوس پڑی رہتی ہے صدیوں تلک
ہجر کے موسم بھی عجب ہوتے ہیں
دُھن میں لیے پھرتے ہیں جو سربَکَف
اُن ہی کے افسانے طرب ہوتے ہیں

0
50
زندگی کے میلے بس، یونہی چلتے رہتے ہیں
ہم چھُپا کے سارے غم، یونہی ہنستے رہتے ہیں
روگ ہم محبت کا، کیوں لگا ہی بیٹھے ہیں
جینے کی تمنّا میں، روز مرتے رہتے ہیں
کُوچے میں ہم اُنکے، اس آرزو میں پھرتے ہیں
اِک نظر عنایت کو، راہ تکتے رہتے ہیں

0
52
تِرا انداز و فِکر اقبال عالَم میں جُدا ہے
سُخن تیرا بھرا جس سے وہ پیغامِ خُدا ہے
تُو نے جھنجھوڑ ڈالی تھی خُودی مُردہ دِلوں میں
نصیحت تیری اب بھی مُسلمانوں کو نِدا ہے

92
گمشدہ تھا میں کہ تجھ سے آشنائی ہو گئی
رہگزر بھی مل گئی، منزل کُشائی ہو گئی
خوف، غم، شبہے، سبھی مجھ سے جدا یوں ہو گئے
سامنے میرے عیاں سب ماورائی ہو گئی

0
63
گمشدہ تھا میں کہ تجھ سے آشنائی ہو گئی
رہگزر بھی مل گئی، منزل کُشائی ہو گئی
خوف، غم، شبہے، سبھی مجھ سے جدا یوں ہو گئے
سامنے میرے عیاں سب ماورائی ہو گئی

0
36
زندگی ہے اور مِری تنہائی ہے
قید نے اور کتنی عمر پائی ہے
تیری عنایت کی نظر نے صنم
برسوں مجھے ہی سزا دلوائی ہے
بےبسی میں سعی ہی کرتا رہا
کیا تُو نے تقدیر یہ لکھوائی ہے!

0
51
بَھری محفل وہ جب آۓ ہیں آرائش ہوئی ہے
عَجب اُن کے حُسن سے ہر سُو گرمائش ہوئی ہے
غَزل کی سامنے بیٹھا کے فرمائش ہوئی ہے
غَضب کی جانیے میری تَو یہ اَزمائش ہوئی ہے
ہمیں تَو وَصل میں کہنے کی عادت ہی نہیں ہے
وہ سمجھے اُلٹا میری کوئی آسائش ہوئی ہے!

0
59
بَندِ تَخیُّل کھول دے، پَرواز کو آزاد کر
کر، دو جہاں کی جُستُجو، تُو عقل کو نقّاد کر
جِدّت کے رَوشن دَور میں، تُو سیکھ لے سارے ہُنر
دَریافتوں کا ہے زَماں، تُو بھی تَو کُچھ اِیجاد کر
جِن کی مِثالیں ہوں بَیاں، وہ بھی کبھی تَو عام تھے
تھے حوصلے میں وہ چَٹاں، بس یہ سبق تُو یاد کر

0
79
چاہت میں اُس کی، جان گنواتا چلا گیا
اپنے جُنوں سے جگ کو ہنساتا چلا گیا
قدموں میں اُس کے پھول بچھاتا چلا گیا
کانٹوں پے اپنا لہو بہاتا چلا گیا
پھولوں کا پیرہن یوں تو پہلے سے سرخ تھا
میں خون تھوڑا اپنا مِلاتا چلا گیا

0
81