چاہت میں اُس کی، جان گنواتا چلا گیا |
اپنے جُنوں سے جگ کو ہنساتا چلا گیا |
قدموں میں اُس کے پھول بچھاتا چلا گیا |
کانٹوں پے اپنا لہو بہاتا چلا گیا |
پھولوں کا پیرہن یوں تو پہلے سے سرخ تھا |
میں خون تھوڑا اپنا مِلاتا چلا گیا |
نامے تو لکھے رہ گئے میرے مکان پر |
میں سب سبق ہی یاد، بُھلاتا چلا گیا |
اس کی نگاہ ناز جو اَرزاں سمجھ گیا |
میں جان بیچ بیچ مَناتا چلا گیا |
مدّت سے اس کے تھا جو ظفؔر انتظار میں |
دفنا کے وہ مزار بناتا چلا گیا |
معلومات