Circle Image

مشتاق شاہ سالک

@Salik582

دیکھ کر خدا یہ حیران خود بھی ہو گیا
لاشہ تو وہاں گرا جاں یہاں نکل پڑی
زندہ ہوں نہ ہی مرا مردوں میں شمار ہے
تیرے بعد روح میری کہاں نکل پڑی
پہلے تو بہت کیا صبر سی کے اپنے لب
سہہ سکا نہ جب تو آخر فغاں نکل پڑی

0
18
آشناؤں سے جان چھوٹی ہے
بے وفاؤں سے جان چھوٹی ہے
ایک چھوٹی سی بس خطا کر کے
پارساؤں سے جان چھوٹی ہے
ہو گیا گھرسے در بدر لیکن
تیرے گاؤں سے جان چھوٹی ہے

0
38
ظلم کر کے بھی بے گنہ نکلے
تجھ کو سارے ستم روا نکلے
زخم دنیا ہو یا غمِ جاناں
درد جتنے تھے لادوا نکلے
خوں میں شامل ہے یوں وفا کا اثر
دم ہی نکلے تو پھر وفا نکلے

0
28
شیخ میں جب نہیں,بھلا پھر کیوں
میری حاجت روا کرے کوئی
روح اٹکی ہے بس نگاؤں میں
میرے حق میں دعا کرے کوئی
بات کرتے ہی کاٹتے ہیں زباں
کس طرح پھر گلہ کرے کوئی

0
19
بخشتا وہ مرا گنہ بھی نہیں
اور مجھے دیتا وہ سزا بھی نہیں
جی نہ پایا بغیر تیرے کبھی
اور ستم ساتھ یہ مرا بھی نہیں
تیرا ملنا بھی اک قیامت اور
رہ میں سکتا ترے سوا بھی نہیں

0
25
یہ رسم اتنی انھیں کوئی بتا تو دے
کفن، رخ لاش سے ، آ کے ہٹا تو دے
مجھے چپ رہنا تیرا مار ڈالے گا
خطا نا بخش بیشک ،تُو سزا تو دے
منانے عمر بھر تیار تو ہوں میں
مگر روٹھا تو کیوں ہے یہ بتا تو دے

0
25
رضا قاتل نگہ قاتل جفا قاتل وفا قاتل
وہ قاتل اس کے لب قاتل ،ہے اس کی ہر ادا قاتل
ملا کے آنکھ ،آنکھوں سے چھری پھیری جو گردن پر
کیا یوں ذبح بھی اور ، دے گیا بھی خوں بہا قاتل
پڑیں دو چار چھینٹیں ذبح کرتے وقت اس پر تو
گلا بھی ساتھ کاٹا ___اور گیا دے بھی گلہ قاتل

232
رضا قاتل نگہ قاتل جفا قاتل وفا قاتل
وہ قاتل اس کے لب قاتل ،ہے اس کی ہر ادا قاتل
ملا کے آنکھ ،آنکھوں سے چھری پھیری جو گردن پر
کیا یوں ذبح بھی اور ، دے گیا بھی خوں بہا قاتل
پڑیں دو چار چھینٹیں ذبح کرتے وقت اس پر تو
گلا بھی ساتھ کاٹا ___اور گیا دے بھی گلہ قاتل

12
وہ کیا گلہ کرے گا پھر دشمنوں سے لوگو
ہو آگ لگ چکی دامن کی جسے ہوا سے.
مقصد تھا گر مٹانا ,تُو نے بنایا کیوں تھا
میں بھی سوال اپنا,پوچھوں گا اک خدا سے
دامن جو تھا چھڑانا پہلے بتا ہی دیتے
دردِ جگر دیا کیوں پوچھو یہ بیوفا سے

18
آئی نہ یاد اس کو میری ذرا وفا تک
میں نے بھلا دیا ہے جس کے لئے خدا تک
سولی پہ سر چڑھا دو جتنا ہو جلدی ممکن
مقصود جب ہو مرنا پھر کیوں جِئوں سزا تک
کرتا اگر میں ہائے لگتا ہے داغ مجھ پر
اک وہ ہیں،قتل بھی جن پر ہو گیا روا تک

30
نادم نہ ہو طبیبا! یہ لادوا نہیں ہے
میرے نصیب میں ہی لکھی شفا نہیں ہے
منصف سے- التجا ہے- کرلے نگاہِ ثانی
خامے نے جو لکھی ہے میری سزا نہیں ہے
الفاظ کی مرے تو بدلی گئی ہے تفسیر
جو تو سمجھ رہا ہے, وہ مدعا نہیں ہے

17
نہ عہدہ کسی کا نہ دھن دیکھتے ہیں
پجاری محبت کے مَن دیکھتے ہیں
سمندر سے گہرے وہ ہیں راز رکھتے
خیالوں میں جن کو مگن دیکھتے ہیں
پہنچتے مقامِ ولایت کو وہ ہیں
جو رستے ہمیشہ کٹھن دیکھتے ہیں

21
سنا ہے وہ پھر آج آنے لگے ہیں
مَرَض جن کے ہاتھوں پرانے لگے ہیں
نکلنے میں اک پل لگا بس وہاں سے
پہنچتے جہاں پر زمانے لگے ہیں
گرایا تھا جس نے رقیبوں کے در پر
وہی کیوں مجھے اب اٹھانے لگے ہیں

27
مرا درد و غم بھی وہاں تک پہنچے
محبت کا قصہ جہاں تک پہنچے
نہیں اب رہا اتنا بھی ہوش مجھ کو
کہاں سے چلے تھے کہاں تک پہنچے
مرے ہی وہ اوپر غضب بن کے ٹوٹے
جو نالے مرے آسماں تک پہنچے

13
یوں رستے سے ان کے ہٹایا گیا ہوں
مقدر کے ہاتھوں لڑایا گیا ہوں
قیامت کی کوئی گھڑی آ رہی تھی
میں مٹی سے جس دم بنایا گیا ہوں
انوکھی مرے ساتھ چالیں چلی ہیں
مٹا میں نہیں ہوں مٹایا گیا ہوں

14
حقیقت کو تم....... کہہ رہے جو تماشا
تماشا حقیقت میں ......تم کر رہے ہو
محبت ہے تم سے....... کہا تھا یہی نا
تو کیوں تم مرا ....سر قلم کر رہے ہو
بٹھا کے رقیبوں کو ...اپنی بغل میں
خدایا یہ کیسا .........ستم کر رہے ہو

18
کبھی دل کسی سے لگایا تو ہوتا
محبت کو دل میں جگایا تو ہوتا
خدا کی قسم جان دے دیتے تم پہ
مجھے اک نظر آزمایا تو ہوتا
وہ آتے نہ آتے یہ ان کی رضا تھی
مگر خط ہی لکھ کے بلایا تو ہوتا

26
مرے پاؤں نیچے کہاں اب زمیں ہے
صبح ہے کہیں رات میری کہیں ہے
گئے ہو تمہی اپنی چوکھٹ بدل کر
مرا سر جہاں تھا ابھی تک وہیں ہے
بہت ہی ہے اعلٰی یہ بندہ سیہ بخت
مگر اس کے منہ میں زباں بس نہیں ہے

17
قسم میرے ہی سر کی جو کھانے لگے
اب نہ کیسے کروں میں یقیں دوستو
فاصلہ اس قدر درمیاں آ گیا
آسماں وہ اگر میں زمیں دوستو
آیا قاصد پیامِ صنم لے کے یہ
وہ بلا ہیں رہے آستاں پہ تجھے

16
ہاتھ رکھ کے نبض پر طبیبوں نے کل
یہ کہا لے کے جاو یہاں سے اسے
اب ضرورت دواؤں کی اس کو نہیں
اب دوا سے ہے بہتر دعا کیجیے
لاکھ سمجھایا موسٰیؑ , خدا نے مگر
چل پڑے جانبِ طور حسرت لیے

0
17
میں اُدھر دیکھ لوں تو اِدھر دیکھ لے
اور حسرت نہیں , اک نظر دیکھ لے
سر مرا کٹ چکا تجھ کو معلوم ہو
لاش میری تو اے بے خبردیکھ لے
تخت کو پا لیا تو نے کر کے جفا
میں ہوا عشق میں دربدر دیکھ لے

57
سب ہیں بندے خدا کے,خدا کون جی
میں گنہگار ہوں ,پارسا کون جی
تم جو کہتے ہو پھرتے میں دشمن ترا
ساتھ یہ تو بتا خیرخواہ کون جی
میری غلطی پہ کہتے ہو, کافر ہو تم
اس جہاں میں دکھا بے خطا کون جی

40
روگ سینے میں اپنے لگا کر چلے
آخری حق بھی تیرا ادا کر چلے
تیری ہر ایک حاجت روا کر چلے
سر کٹا کر چلے ,منہ چھپا کر چلے
گرنے میّت پہ میّت لگی ہے یہاں
ان سے کہہ دو کہ چہرہ چھپا کر چلے

0
42
روگ سینے میں اپنے لگا کر چلے
آخری حق بھی تیرا ادا کر چلے
تیری ہر ایک حاجت روا کر چلے
سر کٹا کر چلے ,منہ چھپا کر چلے
گرنے میّت پہ میّت لگی ہے یہاں
ان سے کہہ دو کہ چہرہ چھپا کر چلے

0
54
آ گئی لاش بارات کے سامنے
پھر جنازہ مجھے ہی ہٹانا پڑا
اس کو آتا نہیں تھا وفا پہ یقین
پھر مجھے مر کے آخر دکھانا پڑا
یوں سمجھ نا رہا تھا مری وہ زباں
تلخ لہجہ بلاخر دکھانا پڑا

53
کیوں ہر اک بات پر غصہ ہوتے
ایسا کیا کردیا گناہ میاں

0
83
تم سے گفتگو ذرا میری دیر تک چلے
کرتا اختلاف ہر بات کا میں اس لیے

0
137
لے کے گے جب سے جانب سزا کے مجھے
آ رہے خط ہیں اہلِ وفا کے مجھے
یاد جن کو خدا کی نہ تھی ذات بھی
دے رہے طعنے خوفِ خدا کے مجھے
ان دعا والے ہاتھوں کو تُو کاٹ کے
سامنے لے جا حاجت روا کے مجھے

0
45
پہلو میں غیر کو جو لیے بیٹھے ہیں
پوچھئے ہم سے کیسے جئے بیٹھے ہیں
ہے سوا موت انجام کچھ بھی نہیں
کام کچھ ہم بھی ایسے کئے بیٹھے ہیں
اللّٰہ کیوں ہے سجایا یہ محشر تو نے
جب سزا کو جہاں میں لیے بیٹھے ہیں

0
173
عشق میں زندگی یوں گزاری
جو بتانے کے قابل نہیں ہے
ہیں ہوئے اتنے میّت کے ٹکڑے
لاش اٹھانے کے قابل نہیں ہے
پوچھتے کیا ہو میری کہانی
ہو چکا خشک آنکھوں سے پانی

73
ان کی ترچھی نگہ کی ادا دیکھئے
موت خود بن رہی اب دوا دیکھئے
یار ہوتا ہے تصویر خود یار کی
دیکھنا گر مجھے ,آئینہ دیکھیے
سر کیا ہے قلم پیار کے بدلے میں
جرم میرا تھا کیا,اور سزا دیکھیے

56
ہم تو ہر حال میں بس وفا کرتے ہیں
عشق میں تو گلے بے وفا کرتے ہیں
جھوٹ کہتے ہیں جو منہ چھپاتے وہی
سچ کہا ہو اگر, سامنا کرتے ہیں
کاٹتے ہیں گلا ہم غریبوں کا وہ
واہ ہم سے ہی پھر وہ گلہ کرتے ہیں

86
درد دنیا سے تھوڑا جدا چائیے
جو مرض چائیے, لادوا چائیے
نا دعا چائیے , نا دوا چایئے
چار لفظوں کا بس حوصلہ چائیے
زخم بھرنے لگے ہیں کلیجے کے پھر
کچھ سکوں کیلئے اب سزا چائیے

139