| لے کے گے جب سے جانب سزا کے مجھے |
| آ رہے خط ہیں اہلِ وفا کے مجھے |
| یاد جن کو خدا کی نہ تھی ذات بھی |
| دے رہے طعنے خوفِ خدا کے مجھے |
| ان دعا والے ہاتھوں کو تُو کاٹ کے |
| سامنے لے جا حاجت روا کے مجھے |
| ہے محبت نے مجھ کو یہ تحفہ دیا |
| داغ لگنے لگے ہیں وفا کے مجھے |
| یہ ملاقات تم سے مری آخری |
| ہو سکے دیکھ لو مسکرا کے مجھے |
| تیر پھینکا نظر سے ملا کے نظر |
| آئے مطلب سمجھ ہیں قضا کے مجھے |
| مجھ پہ گزری ہے کیا چھوڑ اس بات کو |
| آپ خوش ہو نا زندہ جلا کے مجھے |
| چار دل کے مرے چیتھڑوں کے سوا |
| کیا تمھیں مل گیا آزما کے مجھے |
| زندگی رہ گئی بس گھڑی دو گھڑی |
| ہو سکے دیکھ لے پاس آ کے مجھے |
| اُس جہاں میں مجھے کہتا کیا کیا رہا |
| اب بتا سامنے تُو خدا کے مجھے |
معلومات