| درد دنیا سے تھوڑا جدا چائیے |
| جو مرض چائیے, لادوا چائیے |
| نا دعا چائیے , نا دوا چایئے |
| چار لفظوں کا بس حوصلہ چائیے |
| زخم بھرنے لگے ہیں کلیجے کے پھر |
| کچھ سکوں کیلئے اب سزا چائیے |
| ڈھونڈتا پھرتا ہے بتکدے میں صنم |
| ڈھونڈنا جس عمر میں خدا چائیے |
| کون کہتا سدا مجھکو تھامے رکھو |
| دو گھڑی کے لیے آسرا چائیے |
| توبہ انصاف کی بھی عجب شرط ہے |
| پہلے ڈھونڈو گواہ , گر صِلہ چائیے |
| یہ ہی کافی کہ نظریں چراؤ نہ تم |
| کون کافر ہے جسکو جزا چائیے |
| دیکھ کے میرا انجام کہنے لگے |
| تھوڑا ہونا تو اور بھی برا چائیے |
| وہ فرشتوں سے اپنے مراسم رکھے |
| جس کو بندہ اگر بے خطا چائیے |
| میں کٹانے کو تیار گردن مگر |
| ہاتھ خنجر کوئی آزما چائیے |
| جان پہلے ہی لے گے مرے آشنا |
| موت کیوں ہے کھڑی اور کیا چائیے |
| نا جنت کی طلب ہے نہ حورو سرور |
| ان کے قدموں میں تھوڑی جگہ چائیے |
| اور کسی کی نہیں کوئی حاجت مجھے |
| اپنے ہی خود کئے سے پنہ چائیے |
| سر نگوں ہے مرا ,ہو سزا یا جزا |
| حال جو ہو, تری بس رضا چائیے |
معلومات