Circle Image

Malik Asad

@Asad1983

اے دلِ بے چین یہ کیسی بے قراری ہے ؟
بے وفا کے وعدوں پر کیا ابھی بھی شاکی ہے
کیا سبب ہے جو چلا آتا ہے تری طرف ؟
کیا ترا مرا کوئی رشتہ اب بھی باقی ہے ؟
تیری زلف جیسی ہے ہجر کی یہ رات تو
ہے دراز اتنی ہی اتنی ہی یہ کالی ہے

61
السلام علیکم میری بیاض میں داخل کی گئی نظم کو ڈیلیٹ کرنے کا طریقہ نہیں ہے کیا

0
47
اپنی خودی بیچ کر نہ جی پاؤں گا
نادم اپنے آپ سے ہو جاؤں گا
گو نام کا ہی سہی مگر ہوں تو اسد
مر جاؤں گا مانگ کے نہیں کھاؤں گا

0
78
یوں لگا ہوا کا وہ جھونکا بن کے آیا تھا
خواب تھا کوئی جیسے آنکھ نے دکھایا تھا
عکس تھا کوئی جس کو پانی پر بنایا تھا
یا وہ کوئی نغمہ تھا وقت نے سنایا تھا
تیرا باغباں اب تک شاق سے نہیں نکلا
پھول بھی وہ مرجھایا جو ابھی اگایا تھا

0
87
ترے وصف کیسے کروں میں بیاں
کہ اوقات میری ہے اتنی کہاں
کہ رب نے ترے خود کیا ہے بلند
ترے ذکر کو کیسے آئے خزاں
یہاں بھی وہاں بھی کہ ہر سو شہا
درودوں سے مہکا ہوا ہے سماں

94
ہے عاجز یہاں جس سے سب کی زباں
کرے گا قلم کیسے میرا بیاں
ہے خواہش کروں یوں ثنائے خدا
کہ بن جائے ہر بات بگڑی وہاں
مکیں لا مکاں میں تری ذات ہے
گماں کا گزر بھی نہیں ہے جہاں

2
158
بے ثبات ہستی سے پائی جب دغا میں نے
خاک کی تھی اوڑھی جانا یہ اک قبا میں نے
پردے سے یہ منظر پل میں بدل گیا سارا
ایک پل کو جو آنکھیں بند کیں ذرا میں نے
گونج میرے لفظوں کی ہو رہی ہے گھر گھر میں
یوں فنا کے ہاتھوں سے پائی ہے بقا میں نے

0
131
عرش والے ہیں مسرور کیا بات ہے
میرے آقا کے آنے کی یہ رات ہے
آج جھنڈے جہاں میں لگائے گئے
عرش والے بھی دیکھو ہیں آئے ہوئے
ہر طرف ابرِ رحمت ہیں چھانے لگے
جن و انسان خوشیاں منانے لگے

0
88
علم سے ہاتھ جو اٹھاتے ہیں
خاکِ پا بن کے وہ رہ جاتے ہیں
دکھڑے جو غیر کو سناتے ہیں
اپنے جی کو ہی وہ جلاتے ہیں
اپنے ہی جب گراتے ہیں دیوار
غیر اینٹیں اٹھا لے جاتے ہیں

0
88
جاہ و حشم نہ تاجِ شاہی کی چاہ میں
حکمِ خدا ہے لایا قربان گاہ میں
فکرِ متاعِ دنیا کرتے نہیں کبھی
دنیا پٹکتی ہے سر پاپوش گاہ میں
سر بھی اگر کٹے تو کٹ جائے اے خدا
خامی کوئی نہ آئے جادہء راہ میں

0
76
مستفعِلن فاعِلاتن مستفعِلن فاعِلاتن
بینا کیا آنکھ کو کیسی ہے مسیحائی اس کی
اعجاز یہ ہے کبھی کم ہو ئی نہ بینائی اس کی
گر عشق پر ضبط ہو مشکل تو نہ کر عشق غافل
جو ضبط کرتا نہیں ہو جاتی ہے رسوائی اس کی
سب معترف قیس کی ہیں صحرا نوردی کے لیکن

0
152
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن
تھی یار کو ضرورت اس سے نہ پیشتر
کیوں اس قدر ہے میرا وہ آج منتظر
پہلو ۓ یار میں میں سویا تھا ایک شب
تھی رات وہ قیامت کی پر تھی مختصر
مسکان تیری کرتی ہے کام اس جگہ

0
164
ہے سن ابھی سولہ کا اک دنیا ہے شیدائی اس کی
شرماتے ہیں پھول اس سے ایسی ہے رعنائی اس کی
نازک بدن پھول سا جیسے شاخ پر ہو شگوفہ
لینے کو اک بوسہ شبنم ہوئی ہے سودائی اس کی
اک سمت جگنو کی ضو ہے اک سمت پھولوں کی رونق
بلبل ہے نغمہ سرا ایسی بزم آرائی اس کی

1
215
بابا مجھ کو چوڑیاں لادو
چھوٹی سی اک پری تھی گھر میں
بھاگتی پھرتی سارے گھر میں
اس سے روشن تھی بابا کی آنکھیں
ماں کے سینے کی وہ تو ٹھنڈک تھی
جان دونوں کی تھی اسی میں

0
133
نہ کوئی شک نہ ہی ملال دیتے ہیں
مصیبتیں وہ ہنس کے ٹال دیتے ہیں
جو کینہ اور بغض لے کے آتا ہے
وہ دل سے بد ظنی نکال دیتے ہیں
عطا ہے رب کی جو یہ کام بنتے ہیں
بشر تو اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں

0
104