اے دلِ بے چین یہ کیسی بے قراری ہے ؟
بے وفا کے وعدوں پر کیا ابھی بھی شاکی ہے
کیا سبب ہے جو چلا آتا ہے تری طرف ؟
کیا ترا مرا کوئی رشتہ اب بھی باقی ہے ؟
تیری زلف جیسی ہے ہجر کی یہ رات تو
ہے دراز اتنی ہی اتنی ہی یہ کالی ہے
وقت نے مٹا دئیے کیسے کیسے آسماں
ثبت تیرے ہونٹوں کا پر نشان باقی ہے
دل پہ زخم ہوں مگر لب پہ ابتسام ہو
خارزارِعشق میں یہ مقامِ عالی ہے

62