بے ثبات ہستی سے پائی جب دغا میں نے
خاک کی تھی اوڑھی جانا یہ اک قبا میں نے
پردے سے یہ منظر پل میں بدل گیا سارا
ایک پل کو جو آنکھیں بند کیں ذرا میں نے
گونج میرے لفظوں کی ہو رہی ہے گھر گھر میں
یوں فنا کے ہاتھوں سے پائی ہے بقا میں نے
رنگ میرے پیراہن کا ہے سرخ جو دیکھو
سچ بولنے کی پائی ہے یہ سزا میں نے
ہے عزیز تر یہ قیدِ قفس اسد مجھ کو
ہے یہیں کہیں کھوئی اپنی وہ انا میں نے

0
133