کبھی رت پرانی کو یاد کر کبھی مشکلوں کا حساب کرمری حسرتوں کو تو داد دے کبھی حسنِ لیلی کو خواب کرکبھی منتشر کبھی روبرو، کبھی نفرتیں کبھی آرزوکبھی جستجو رہے کوبہ کو، کبھی دوبدو تو جناب کریہ خیال دل میں اتر گیا کہ زمانہ جو تھا گزر گیا کبھی سوچوں میں وہ دوام دے کبھی دید پھر سے عذاب کرکبھی عشق لا مرے روبرو ،کبھی میں کروں زرا گفتگو کبھی حسن کو بیقرار کر کبھی حسنِ تاب بے تاب کرکبھی وصل کی رہیں فرقتیں، کبھی دوریاں کبھی قربتیں کبھی آرزو میں تڑپ ملے کبھی چاہتوں کا حجاب کرکبھی یاد کر کبھی رخ دکھا، کبھی ساقی بن کبھی مے پلا کبھی شام شامِ غزل کریں کبھی غرق موجِ شراب کرعتیق الرحمن پرستشؔ