فرقتوں سے رو بہ رو ہونے لگا |
اشکِ خوں جب جو بہ جو ہونے لگا |
دشت کے اس راہ پر جب چل دیے |
جو سنا تھا ہو بہ ہو ہونے لگا |
دھڑکنوں میں ہے وہ شامل آج کل |
دل بہ دل اب خو بہ خو ہونے لگا |
لطف تیری مے کشی کا عنبریں |
گل ملا تو بو بہ بو ہونے لگا |
چاہتیں بڑھتی گئیں ہیں اس طرح |
جب تصور روبرو ہونے لگا |
کیا اثر چھوڑا مری رسوائی میں |
اشک میرا جو بہ جو ہونے لگا |
عشق نے وہ ہیں دکھائے معجزے |
منتظر جب تو بہ تو ہونے لگا |
باندھ کر وہ عہد کو رخصت ہوا |
منتظر میں کو بہ کو ہونے لگا |
روبرو ہونے سے بہتر ہے یہی |
رفتہ رفتہ دوبدو ہونے لگا |
دامنِ آشفتگی تھا ابتری |
چاک دل اب چارسو ہونے لگا |
کل تلک جو حسرتی تھا ہر طرف |
کب کسی آرزو ہونے لگا |
ہے ترا یہ چہرہ کتنا بے نِقاب |
ہر کسی کی جستجو ہونے لگا |
اے ستم گر! کر ستم تسکین ہو |
تو ہی میری آرزو ہونے لگا |
اے پرستشؔ! چاک کردوں اور بھی |
پھر گریباں جو رفو ہونے لگا |
( عتیق الرحمن پرستشؔ) |
معلومات