| میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی |
| تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی |
| غیر کی مرگ کا غم کس لیے اے غیرتِ ماہ! |
| ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہوا، اور سہی |
| تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خدائی کیوں ہے؟ |
| تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی |
| حسن میں حور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی |
| آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی |
| تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا |
| کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی |
| کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ! |
| خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی |
| کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب |
| سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی |
| مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں |
| زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی |
| مجھ سے غالبؔ یہ علائی نے غزل لکھوائی |
| ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی |
بحر
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات