بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
عشق پیچے کی طرح حسن گرفتاری ہے
لطف کیا سرو کی مانند گر آزاد رہو
ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے
دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


963
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


565
آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرفِ نفرت کوئی، شمشیرِ غضب ہو جیسے
تا ابد شہرِ ستم جس سے تباہ ہو جائیں
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
456
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہوا داروں کا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
513
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیرِ غمِ الفت نہ کروں
اُس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں
سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگرِ آلام نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
529
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


3220
کیا مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
کون سے درد و ستم کا یہ طرف دار نہ تھا
آدمِ خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئنہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا
دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں
تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
426
جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت
دستِ صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تۂ دام بہت
ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایّام بہت

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1306
کوئی دیتا ہے بہت دور سے آواز مجھے
چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں
نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں
دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے
اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے
اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1164
آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر
ذہن میں خوبئِ تسلیم و رضا ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جاۓ گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
861
آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب ، اور تمنّا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1849
مُژدہ ، اے ذَوقِ اسیری ! کہ نظر آتا ہے
دامِ خالی ، قفَسِ مُرغِ گِرفتار کے پاس
جگرِ تشنۂ آزار ، تسلی نہ ہوا
جُوئے خُوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس
مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہَے ہَے!
خُوب وقت آئے تم اِس عاشقِ بیمار کے پاس

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
425
گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
سر خوشِ خواب ہے وہ نرگسِ مخمور ہنوز

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
332
وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہر بار ہنوز
یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمئ رفتار ہنوز

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
241
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولئ انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


533
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب
پوچھ مت وجہ سیہ مستئ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب
جو ہوا غرقۂ مے بختِ رسا رکھتا ہے
سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
293
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1902
گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ
ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
1279
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایۂ چشم میں‌ حیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخیٔ لب میں‌ پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشۂ مے میں‌ ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


528
دیکھنے کی تو کسے تاب ہے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک
ٹوکتی ہے کہ وہ دروازہ کھلا ہے اب بھی
اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرشِ نومیدیِ دیدار بچھا ہے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
339
اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگیِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمازِ رموزِ غمِ پنہانی ہیں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن خاطرِ دوست

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
337
شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے یہ وقت رواں
جو کبھی سنگ گراں بن کے مرے سر پہ گرا
راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر
جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا
اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے
جو کبھی خونِ جگر بن کے مژہ پر آیا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1161
عشق تو ایک کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جَنوں ہے یوں ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1
1944
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2
3499
ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے
دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اُجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے
وصفِ مے اور صفتِ یار کے مضموں کے سوا
ناصحا تیرے سخن یاد نہیں ہونے کے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


531
پھر کوئی آیا دلِ زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
975
مُوئے مِژگاں سے تِرے سینکڑوں مرجاتے ہیں
یہی نشتر تو رگِ جاں میں اُتر جاتے ہیں
حرم و دیر ہیں عُشاق کے مُشتاق مگر
تیرے کوُچے سے اِدھر یہ نہ اُدھر جاتے ہیں
کوچۂ یار میں اوّل تو گُزر مُشکل ہے
جو گُزرتے ہیں زمانے سے گُزر جاتے ہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
1792
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعثِ ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مرجائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


2366
وہ تو پتھر پہ بھی گزرے نہ خدا ہونے تک
جو سفر میں نے نہ ہونے سے کیا ہونے تک
زندگی اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک
ایک اِک سانس مری رہن تھی دِلدار کے پاس
نقدِ جاں بھی نہ رہا قرض ادا ہونے تک

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2
1127
مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے
میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا
میں نہ شبنم کا پرستار، نہ انگاروں کا
اہلِ ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا
نہ خلاؤں کا طلب گار، نہ سیّاروں کا
☆☆☆

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1377
نکلے چشمہ جو کوئی جوشِ زناں پانی کا
یاددہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا
لطف اگر یہ ہے بتاں صندلِ پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرئہ نورانی کا
کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
469
خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
730
دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہِ معنی نہ ہوا
سبزہِ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


1364
حسرتِ جلوہِ دیدار لئے پھرتی ہے
پیشِ روزن پسِ دیوار لئے پھرتی ہے
مالِ مفلس مجھے سمجھا ہے جنوں نے شاید
وحشتِ دل سرِ بازار لئے پھرتی ہے
کعبہ و دیر میں وہ خانہ بر انداز کہاں
گردشِ کافر و دیں دار لئے پھرتی ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1452
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
واۓ دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
7612
مانعِ دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو،کہ جہاں
جادہ غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں
حسرتِ لذّتِ آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
559
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
589
آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1960
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
642
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے
شوق گل چینِ گلستانِ تسلّی نہ سہی
مے پرستاں خمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
787
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلا ہوتا ہے
پر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
گو سمجھتا نہیں پر حسن تلافی دیکھو
شکوۂ جور سے سر گرمِ جفا ہوتا ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


877
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
855
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں‌ کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
575
نقشِ نازِ بتِ طناز بہ آغوشِ رقیب
پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے
تو وہ بد خو کہ تحیر کو تماشا جانے
غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے
وہ تبِ عشق تمنا ہے کہ پھر صورتِ شمع
شعلہ تا نبضِ جگر ریشہ دوانی مانگے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
654
ہر قدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے ، بیاباں مجھ سے
درسِ عنوانِ تماشا ، بہ تغافل خوش تر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے
وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
صورتِ دود ، رہا سایہ گریزاں مجھ سے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
879
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بلاتا تو ہوں اس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش! یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
736
شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَر افشاں نکلا
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


2314
اے شہنشاہِ فلک منظرِ بے مثل و نظیر
اے جہاندارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل
پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ ا ورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادت اِکلیل
تیرا اندازِ سُخَن شانۂ زُلفِ اِلہام
تیری رفتارِ قلم جُنبشِ بالِ جبریل

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن


0
629
ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھّا کہیے
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ گرامی لکھیے
حرزِ بازوئے شگرفانِ خود آرا کہیے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
572
آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہو جاتا
کاش ناقدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام
میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہو جاتا
یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم
رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَوا ہو جاتا

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


0
300