نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ
"کمالِ گرمئ سعئ تلاشِ دید" نہ پوچھ
بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ
تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!
کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


1920
مرد ہو، عشق سے جہاد کرو
اب مجھے بھول کر نہ یاد کرو
دل سے بیتے دنوں کی یاد مٹاؤ
نہ تو اَب خود ہی رو، نہ مجھ کو رُلاؤ
بھول جاؤ کہی سُنی باتیں!
نہ تو وہ دن ہیں اب نہ وہ راتیں

فاعِلاتن مفاعِلن فَعِلن


2336
شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا
یک قدم وحشِت سے درسِ دفترِ امکاں کھلا
جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


571
نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِ بزمِ وصلِ غیر ، گو بیتاب تھا
مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا
نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوِ اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
691
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے​
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا​
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن​
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا​

مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن


2092
چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست اَفشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو
راہ تَکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن


9024
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاۂ آئینہ ساز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں

متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن متَفاعلن


3446
یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا
جب تک ہے دل بغل میں ہر دم ہو یاد تیری
جب تک زباں ہے منہ میں جاری ہو نام تیرا
ہے تو ہی دینے والا پستی سے دے بلندی
اسفل مقام میرا اعلیٰ مقام تیرا

مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن


3424
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


4928
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا

فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2909
اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا
اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا
مقدّر پر ہی گر سود و زیاں ہے
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا نہ پایا
کہے کیا ہائے زخمِ دل ہمارا
دہن پایا لبِ گویا نہ پایا

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


1396
حسرتِ جلوہِ دیدار لئے پھرتی ہے
پیشِ روزن پسِ دیوار لئے پھرتی ہے
مالِ مفلس مجھے سمجھا ہے جنوں نے شاید
وحشتِ دل سرِ بازار لئے پھرتی ہے
کعبہ و دیر میں وہ خانہ بر انداز کہاں
گردشِ کافر و دیں دار لئے پھرتی ہے

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1508
بھول گئے تم جن روزوں ہم گھر پہ بلائے جاتے تھے
ہوتے تھے کیا کیا کچھ چرچے عیش منائے جاتے تھے
کیا کیا کچھ تھی خاطرداری کیا کیا پیار کی باتیں تھیں
کس کس ڈھب سے چاہ جتا کر ربط بڑھائے جاتے تھے
کرتے تھے تم ان کی خوشامد جو تھے ہمارے محرمِ راز
ہر ہر بات پہ کیا کیا ان کے ناز اٹھائے جاتے تھے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


1218
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا دارا جانے ہے

بحرِ ہندی/ متقارب مثمن مضاعف


4304
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


687
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یا رب یہ درِ گنجینہِ گوہر کھلا
شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاوں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن


0
1096
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1288
سراپا رہنِ عشق و نا گزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
بقدرِ ظرف ہے ساقی خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
555
نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا
محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


0
501
ستائش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نسیاں کا
بیاں کیا کیجئے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرہِ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا ، ہوا ریشہ نَیَستاں کا

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن


1711