تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
2
1658
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا!
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا!
فَعِلات فاعِلاتن فَعِلات فاعِلاتن
0
3405
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے 'کیا'؟
حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
0
920
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
اے منشئ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
عصفور ہے تو مقابلِ باز نہ ہو
آواز تیری نکلی اور آواز کے ساتھ
لاٹھی وہ لگی کہ جس میں آواز نہ ہو
اے منشئ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
0
194
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے
حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب
غالبؔ کا پکا دیا ہے کلیجا تم نے
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
0
192
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے
گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار
فیروزے کی تسبیح کے ، ہیں یہ دانے
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
0
153
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں دِرنگ ، کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا سے ، اللہ اللہ!
وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے !
ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
0
259
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا
اِتنے ہی برس شُمار ہوں ، بلکہ سِوا
ہر سیکڑے کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں ، بلکہ سِوا
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا
0
271
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے
یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ
ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد کرے
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
0
333
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
ہے لُطف و عنایاتِ شہنشاہ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جِدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
0
475
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لئے
وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لئے
یعنی ہر بار صُورتِ کاغذِ باد
ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لئے
ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لئے
0
232
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
دل تھا ، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
بیتابئ رشک و حسرتِ دید سہی
ہم اور فُسُردن اے تجلی افسوس
تکرار روا نہیں تو تجدید سہی
دل تھا ، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
0
410
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں ؟
روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ ! لیکن
خَسخانہ و برفاب کہاں سے لاؤں ؟
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟
0
341
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا
کیونکر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں !
کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
0
219
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی و جمالی باہم
ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و دِوالی باہم
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
0
212
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگر نگویم مشکل
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
0
554
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
ایّامِ جوانی رہے ساغر کَش حال
آ پہنچے ہیں تا سوادِ اقلیم عدم
اے عُمرِ گُذشتہ یک قدم استقبال
بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
1
150
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
ہے سوزِ جگر کا بھی اسی طور کا حال
تھا مُوجدِ عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لئے گیا ہے کیا کھیل نکال !
آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
2
172
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ *
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سَوگند ہو گیا ہے غالبؔ
دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
2
251
29 جولائی
رباعی
مرزا غالب
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
اُس سے گِلہ مند ہو گیا ہے گویا
پَر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
0
515
»
28
27
26
25
...
1
«
معلومات