| پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے |
| جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے |
| آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں |
| کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے |
| عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہو گا دنیا میں |
| جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا دارا جانے ہے |
| چارہ گری بیماریٔ دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں |
| ورنہ دلبرِ ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے |
| مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں |
| اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارا جانے ہے |
| عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ جی اٹھتا ہے دیکھے اسے |
| یار کے آ جانے کو یکا یک عمر دو بارا جانے ہے |
| تشنۂ خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش |
| دم دار آبِ تیغ کو اس کے آبِ گوارا جانے ہے |
بحر
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات