| تھی کہاں شمع کہ پروانہ بھی آتا کوئی | 
| شہرِ ظلمات میں جگنو بھی نہ چمکا کوئی | 
| چوٹ لگتی ہے تو لگتی ہے اسی گھاؤ پر | 
| ہائے اس بات کو اب تک نہیں سمجھا کوئی | 
| بارش اتنی تو نہیں تھی کہ ڈبو ہی دیتی | 
| میرے اندر سے امڈ آیا تھا دریا کوئی | 
| کوئی تنہا ہے پہ یادوں میں گھرا پھرتا ہے | 
| اور بیٹھا ہے سرِ بزم اکیلا کوئی | 
| آئنہ یوں بھی مجھے دوست نما لگتا ہے | 
| مجھ کو اُس پار نظر آتا ہے مجھ سا کوئی | 
    
معلومات