| ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا |
| آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا |
| تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ |
| اس میں کچھ شائبۂ خوبیِ تقدیر بھی تھا |
| تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟ |
| کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا |
| قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد |
| ہاں! کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا |
| بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا! |
| بات کرتے، کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا |
| یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئی |
| گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا |
| دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا |
| نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا |
| پیشِے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام |
| ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا |
| ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی |
| آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا |
| پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق |
| آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟ |
| ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ |
| کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا |
بحر
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
|
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات